ایمز ٹی وی (اسلام آباد)اٹھارویں اور اکیسویں آئینی ترامیم کیخلاف دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے آبزرویشن دی ہے کہ عدلیہ کی آزادی کی تشریح ہوچکی ہے اور زیر غور مقدمے میں بس پارلیمنٹ کے اختیار کا تعین کرنا ہے۔چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 17رکنی فل بینچ نے 18ویں 21ویں آئینی ترامیم اور فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران سماعت میں لاہور ہائی کورٹ بار کے وکیل حامد خان کے دلائل پر جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس بات سے کسی کو انکار نہیں عدلیہ کی آزادی اور انتظامیہ سے علیحدگی آئین کا اہم نکتہ ہے، اگر پارلیمانی کمیٹی کو جوڈیشل کمیشن کا حصہ بنا دیا جائے تو پھر آپ کو قبول ہوگا کیا اچیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے کہ اداروں کے درمیان کوئی جنگ ہے نہ ٹکراؤ، دیکھ رہے ہیں کہ آئینی ترامیم کے تحت کسی آرٹیکل کی خلاف ورزی تو نہیں ہوئی، ترامیم ہوں گی تو مقدمات بھی عدالتوں میں آئیں گے، جسٹس جوا دایس خواجہ نے کہا کہ ہمارے سامنے صرف پارلیمنٹ کے اختیار کا سوال ہے، ہم نے دیکھنا ہے کہ پارلیمنٹ کی کچھ حدود و قیود ہیں یا پھر وہ آزاد ہے، کیا پارلیمنٹ کی منظور کردہ ترامیم کوکالعدم قرار دینے کیلیے بنیادی ڈھانچے کو وجہ بنایا جاسکتا ہے؟ کیا پارلیمانی کمیٹی سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہوئی ہے اورکیا اس بنیاد پر اٹھارویں ترمیم کو کالعدم کیا جا سکتا ہے۔