اسلام آباد: ہائی کورٹ نے حکومت اور دھرنا قیادت کے درمیان فوج کی ثالثی میں ہونے والے معاہدے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت نے معاہدے کا نہیں بلکہ صرف دھرنا ختم کرانے اور فیض آباد انٹرچینج خالی کرانے کا حکم دیا تھا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت ہوئی اور وزیر داخلہ احسن اقبال، چیف کمشنر اسلام آباد ذوالفقار حیدر اور دیگر اعلیٰ حکام عدالت میں پیش ہوئے۔ اس موقع پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے معاہدے اور فوج کی ثالثی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آئین پاکستان کے تحت کسی آرمی افسر کا ثالث بننا کیسا ہے، کیا آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ آئین سے باہر ہیں، فوجی افسر ثالث کیسے بن سکتے ہیں، یہ تو لگ رہا ہے کہ ان کے کہنے پر ہوا، ریاست کے ساتھ کب تک ایسے چلتا رہے گا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ رپورٹ پیش کی جائے کہ آپریشن ناکام کیوں ہوا، ہماری انتظامیہ کو کیوں ذلیل کیا گیا، آرمی اپنے آئینی کردار میں رہے، آرمی چیف کون ہوتے ہیں ثالث بننے والے، جن فوجیوں کو سیاست کرنے کا شوق ہے وہ فوج کو چھوڑیں اور سیاست میں جائیں، قوم کے ساتھ کب تک تماشا لگا رہے گا، تحریری طور پر آگاہ کریں کس نے ہماری انتظامیہ کو رسوا کیا، کس نے پولیس کی پیٹھ میں چھرا گھونپا؟، آرمی اپنی آئینی حدود میں رہے، فوج قانون توڑنے والے جلوس کے سامنے کیسے نیوٹرل رہ سکتی ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیے کہ اب عدلیہ میں جسٹس منیر کے پیروکارنہیں رہے، اعلیٰ عدلیہ کو گالیاں دینے والوں کے معافی مانگنے کی شق معاہدے میں کیوں شامل نہیں؟، وزیر آئی ٹی انوشہ رحمان کو بچانے کیلئے زاہد حامد کی بلی چڑھا رہے ہیں، ناموس رسالت کیس میں انوشہ رحمان کے ڈرٹی گیم کا اشارہ دیا تھا، کیا فیض آباد کے ساتھ جی ایچ کیو ہوتا تو کیا دھرنا دیا جاتا؟، دہشت گردی کی شقوں والے مقدمات یکدم کیسے ختم ہونگے، ان باتوں کے بعد میری زندگی کی کوئی ضمانت نہیں، معلوم ہے قادیانیوں کو کس نے ڈارلنگ بنا کر رکھا ہوا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ میں نے فیض آباد کلیئر کرانے کا حکم آئین کے مطابق دیا، ہمیں معاملے کی حساسیت کا علم ہے، آئی بی رپورٹ دے کہ دھرنے والوں کے پاس آنسو گیس گن، شیل اور ماسک کہاں سے آئے، معاہدہ پر دستخط کرنے والا میجر جنرل فیض حمید کون ہے؟، یہ تاثردیا جا رہا ہے کہ ہر مرض کی دوا فوج ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وزیر داخلہ سے کہا کہ آپ نے اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس کو بے رحمی کے ساتھ ذلیل کروا دیا۔ احسن اقبال نے کہا کہ پولیس کو ہم نے تو نہیں ذلیل کرایا، میرے قتل پر بھی دس لاکھ روپے انعام رکھا گیا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے آپ اس تاثر کو تقویت دے رہے ہیں کہ ایک بھی ملزم پکڑنا ہو گا تو فوج کرے گی، آپ نے ثابت کر دیا کہ دھرنا کے پیچھے وہی تھے، ریاست اور آئین کے ساتھ کھیلنے کی حد ہو گئی۔ آئی ایس آئی کے نمائندے نے عدالت کے روبرو بیان دیا کہ ایجنسیاں دھرنے کے پیچھے نہیں ہیں۔ قبل ازیں عدالت کے حکم پر چیف کمشنر نے معاہدے کا متن پڑھ کر سنایا۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ عدالت نے معاہدے کا نہیں بلکہ صرف دھرنا ختم کرانے اور فیض آباد انٹرچینج خالی کرانے کا حکم دیا تھا۔ چیف کمشنر اسلام آباد ذوالفقار حیدر نے کہا کہ کچھ دیر کے بعد دھرنا ختم اور فیض آباد کا علاقہ کلیئر ہو جائے گا۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 4 دسمبر تک ملتوی کرتے ہوئے آئی بی سے دھرنے کے خلاف پولیس آپریشن کی ناکامی اور سوشل میڈیا پر وائرل آڈیو سے متعلق بھی رپورٹ طلب کی۔ سیکرٹری داخلہ ارشد مرزا نے عدالت کو بتایا کہ ختم نبوت میں ترمیم سے متعلق راجہ ظفر الحق کمیٹی کی رپورٹ تیار نہیں ہوئی۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ مجھے معلوم ہے اس پر ظفر الحق اورمشاہداللہ نے دستخط کر دیئے ہیں لیکن احسن اقبال کے دستخط رہتے ہیں۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ تحریری معاہدہ عدالت میں آج ہی جمع کروائیں اور دھرنا ختم کروانے کے اقدامات کی تفصیل بھی طلب کرلی۔ قبل ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ میں فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت ہوئی اور وزیر داخلہ احسن اقبال عدالت میں پیش نہ ہوئے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ وزیر داخلہ کیوں پیش نہیں ہوئے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وزیر داخلہ دھرنا قیادت سے مذاکرات کیلئے پوری رات جاگتے رہے، اس لیے پیش نہیں ہوئے۔ عدالت نے پوچھا کہ وزیر داخلہ رات بھر جاگ کر کیا کرتے رہے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے بتایا کہ دھرنے والوں کے ساتھ معاہدہ ہوا ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے پوچھا کہ دھرنے والوں سے کیا معاہدہ ہوا تفصیلات بتائیں۔ تو ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھے خود میڈیا سے معلوم ہوا ہے اور معاہدے کی تفصیلات وزیر داخلہ ہی بتائیں گے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے وزیر داخلہ احسن اقبال کو پندرہ منٹ میں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ عدالت کا حکم ملتے ہی وزیر داخلہ احسن اقبال عدالت میں پیش ہوگئے۔ واضح رہے کہ جمعہ 24 نومبر کو پچھلی سماعت میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے دھرنا ختم نہ کرانے پر وزیر داخلہ احسن اقبال کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے طلب کیا تھا۔