ایمز ٹی وی(کراچی) پیپلز پارٹی کی حکومت نے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو آئی جی سندھ کے عہدے سے ہٹا کر ان کی جگہ مشتاق مہر کو نیا آئی جی سندھ تعینات کردیا ہے ۔
سینئر اینکر پرسن شاہزیب خانزادہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اے ڈی خواجہ کو سابق صدر کے دوست کے کہنے پر ہٹایا گیا ہے جبکہ پیپلز پارٹی نے اپنے 8 سالہ دور میں سندھ میں 12 آئی جی تبدیل کیے ہیں۔
سندھ میں وہی ہو رہا ہے جو گزشتہ ساڑھے آٹھ سال سے ہورہا ہے اور موجودہ وزیر اعلیٰ بھی سابق وزیر اعلیٰ کی طرح بے بس ہیں اور حکومت کے فیصلے کہیں اور سے ہورہے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کی وجہ پارٹی کی اعلیٰ شخصیت کے قریبی دوست کی ناراضی کی وجہ بنی ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ آصف زرداری کے قریبی دوست اے ڈی خواجہ سے ناراض تھے کیونکہ بدین میں پولیس اہلکار کسانوں کو زبردستی اس شخص کی شوگر مل میں گنا فروخت کرنے کا کہہ رہے تھے جس کا اے ڈی خواجہ نے نوٹس لیا ۔ اے ڈی خواجہ نے پولیس حکام کی سرزنش کی جس پر ان کی آصف زرداری کے دوست سے سخت تلخ کلامی ہوئی اور دوست نے انہیں عہدے سے ہٹوانے کی دھمکی دی ۔
شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ نومبر میں کلفٹن کے ایک گھر میں چھاپے کے دوران اسلحے کی برآمدگی کا معاملہ بھی آئی جی سندھ کو ہٹائے جانے کی وجہ بنا ہے، کیونکہ سابق صدر کے دوست نے ہتھیاروں کی واپسی کا مطالبہ کیا لیکن آئی جی سندھ نے ہتھیار واپس نہیں کیے۔ علاوہ ازیں راو¿ انوار کی واپسی کا معاملہ بھی وجہ تنازعہ بنا، آئی جی سندھ پر پریشر تھا کہ راو¿ انوار کو واپس ایس ایس پی ملیر لگایا جائے لیکن وہ نہیں مانے ۔
انہوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی سندھ میں اپنے 8 سالہ دور حکومت میں 12 آئی جی تبدیل کرچکی ہے۔ اے ڈی خواجہ سے پہلے دو سال تک آئی جی سندھ رہنے والے غلام حیدر جمالی کو مارچ میں سپریم کورٹ نے ہٹایا ، ان سے پہلے اقبال محمود کو 23 اپریل کو تعینات کیا گیا اور 23 جولائی کو ہٹادیا گیا،ان سے پہلے شاہد ندیم بلوچ ایک سال تک آئی جی سندھ تعینات رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب میں بھی سندھ جیسی ہی صورتحال ہے جہاں گزشتہ آٹھ سال کے دوران 8 آئی جی آ چکے ہیں جبکہ موجودہ آئی جی پنجاب 2014 سے تعینات ہیں۔ آئی جی کے معاملے میں خیبر پختونخوا سب پر بازی لے گیا ہے اور تحریک انصاف کی حکومت نے آئی جی کو تقرری و تبادلوں کا مکمل اختیار دیا ہے اور ان پر کسی قسم کا سیاسی پریشر نہیں ڈالا جاتا۔