ایمز ٹی وی(کراچی) وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کراچی کے سینئر پولیس افسران اور ایف آئی اے اہلکاروں پر پاکستان اسٹیل مل کے فنڈز میں کیے جانے والے کروڑوں روپے فراڈ کے معاملے کو متاثر کرنے کے الزام پر سندھ کے ڈائریکٹر سے رپورٹ طلب کرلی ہے۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ ایف آئی اے کے اکنامک کرائم ونگ (ای سی ڈبلیو) کے ڈپٹی ڈائریکٹر کی جانب سے ایف آئی اے سندھ کے ڈائریکٹر کو ایک خط تحریر کیا گیا ہے جس میں ادارے کے سینئر افسران کی جانب سے تحقیقات پر اثر انداز ہونے کے الزام کی رپورٹ طلب کی گئی ہے۔
خط میں شکایت کنندہ کی جانب سے بھیجی گئی درخواست بھی شامل کی گئی ہے جس نے فراڈ کی تحقیقات پر سینئر ایف آئی اے حکام اور سندھ پولپیس کے افسران کے مبینہ طور پر اثر انداز ہونے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
ایف آئی اے کے خط کے ساتھ منسلک درخواست کے متن کے مطابق 'دسمبر 2016 کے دوسرے ہفتے میں پاکستان اسٹیل مل میں کروڑوں روپے کے فراڈ کے حوالے سے ایک ایف آئی آر درج کی گئی تھی اور پانچ مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ اسی دوران ایک عبوری چالان عدالت میں پیش کیا گیا'۔
اس میں مزید کہا گیا کہ 'بدقسمتی سے سینئر پولیس افسر احمد یار چوہان، ایف آئی اے کراچی کے ڈائریکٹر عاصم قائم خانی اور ایف آئی اے کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر سعید میمن، جو اس وقت ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کررہے ہیں، نے اسی روز مداخلت کرتے ہوئے اس کیس کو ایک اور کرائم سرکل کے سب انسپکٹر کے حوالے کردیا'۔.
شکایت کنندہ نے اسلام آباد میں ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام سے رابطہ کیا اور انھیں اس معاملے پر نوٹس لینے کا کہا اور تشویش کا اظہار کیا کہ اس کیس نے اعلیٰ افسران کی توجہ کیوں حاصل کی، 'کیا اس کا مقصد مشتبہ افراد کو تحفظ فراہم کرنا تھا'۔
خیال رہے کہ کئی ماہ کی تحقیقات کے بعد ایف آئی اے افسر نے پاکستان اسٹیل مل کے افسران کو مبینہ طور پر کروڑوں روپے کی خرد برد کے الزام میں گرفتار کیا تھا ان پر ملک کی سب سے بڑی صنعت کے ہسپتال میں ادویات کی فراہمی کے جعلی کنٹریکٹ بنانے کے الزام بھی ہے۔ ایف آئی اے نے جنرل مینجر نصرت اسلام بٹ، مینجر ڈاکٹر مستنصر گیلانی اور اکاؤنٹ سیکشن کے سینئر افسر فہد خان کو ان کے گھروں سے گرفتار کیا تھا۔
تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ٹینڈرز کو ختم کرنے کے بعد ملزمان نے خود ساختہ اکاؤنٹ کے ذریعے خریداری کیلئے بجٹ منظور کیا۔
پہلی خریداری کیلئے انھوں نے ایک کروڑ کی منظوری لی اور بعد ازاں اس بجٹ کو 2 کروڑ 60 لاکھ تک بڑھا دیا گیا، اس دوران غیر رجسٹر ادویات کی فروخت کرنے والوں سے اور دیگر آزاد ذرائع سے خریداریاں کی گئیں۔
اس کے علاوہ خریداری اور رقم کی ادائیگیوں کیلئے 'جعلی واؤچر' بھی پیش کیے گئے۔ اسلام آباد میں موجود ایف آئی اے کے حکام کی جانب سے متعلقہ معاملے پر مداخلت کے بعد کیا اثرات مرتب ہوسکتے ہیں کہ سوال پر ایک سینئر افسر کا کہنا تھا کہ'اسلام آباد سے ہونے والی حالیہ مداخلت کے بعد اس فراڈ کی صاف اور شفاف تحقیقات کی اُمید کی جارہی ہے'۔