جمعرات, 02 مئی 2024


تقریباً 15 فیصد پاکستانی آبادی جسمانی معذوریوں کا شکار ہے

ایمز ٹی وی(کراچی) تقریباً 15 فیصد پاکستان کی آبادی مختلف جسمانی معذوریوں کا شکار ہے، معذور افراد بھی دیگر عام شہریوں کی طرح با عزت زندگی بسر کرسکتے ہیں، ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ یہاں معذور افراد کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور اس انسانی حقوق کی پامالی کا آغازمعاشرے کے سب سے بنیادی سماجی ادارے خاندان (Family) سے ہوتا ہے، جبکہ معذور افراد کے ساتھ برتاو عام افراد کے مقابلے میں زیادہ شائستہ انداز میں ہونا چاہیے۔ یہ بات سعودی عرب میں مقیم قومی و بین الاقوامی معذور ویلفئر آرگنائزیشن کے متحرک رکن امجد صدیقی نے پیر کو بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس)، جامعہ کراچی کے پروفیسر سلیم الزماں صدیقی آڈیٹوریم میں عوامی آگاہی پروگرام کے تحت ”معذوری کے ہمراہ زندگی بسر کرنا“ کے موضوع پراپنے خطاب کے دوران کہی۔ لیکچر کا انعقاد ڈاکٹر پنجوانی سینٹر برائے مالےکےو لر میڈیسن اور ڈرگ ریسرچ (پی سی ایم ڈی) جامعہ کراچی اور ورچول ایجوکیشنل پروگرام برائے پاکستان کے باہمی تعاون سے ہوا، اساتذہ، صحت کے ماہرین، طلبہ و طالبات، محققین، این جی اوز کے نمائندگان اور عام لوگوں نے خطاب میں خصوصی شرکت کی۔ واضح رہے کہ امجد صدیقی 1981 ءمیں سعودی عرب میں ایک خطرناک کارحادثہ میں معذوری کا شکار ہوگئے تھے، لیکن انھوں نے معذوری کے ساتھ کسی قسم کا کوئی سمجھوتا نہیں کیا اور اس سے نبرد آزما رہے اور ایک جہد مسلسل کے نتیجے میں سعودی عرب میں نہ صرف کامیاب تاجر قرار پائے بلکہ قومی و بین الاقوامی معذور ویلفئر آرگنائزیشن کے متحرک رکن بھی بن گئے۔ انھوں نے کہا مجھے حادثہ نے احساس دلایا کہ ضروری نہیں ہے کہ معذوری ایک بری ہی حقیقت بن کر سامنے آئے، اس کو قابو کیا جاسکتا ہے، معذوری کا مطلب زندگی کا اختتام نہیں ہے، معذور افراد کو چاہیے کہ وہ زندگی کی طرف آئیں اور معاشرے میں اپنا کردار ادا کریں، خاندان کسی معذور فرد کی حوصلہ افزائی کرنے کے حوالے سے کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ انھوں نے اپنی معذوری کا ذکر کرتے ہوئے کہا انھوں نے اس کمزوری کے آگے کبھی امید کا دامن نہیں چھوڑا یہی وجہ ہے کہ ان کاربار دنیا بھر میں کسی نہ کسی صورت موجود ہے، انھوں نے کہا کسی بھی فردکی ترقی کے راہیں اُس کے مضبوط ارادوں میں پوشیدہ ہوتی ہیں

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment