Saturday, 16 November 2024

اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل بحالی سے متعلق فیصلے پرعملدرآمد نہ ہونے کیخلاف توہین عدالت کی درخواست نمٹا دی۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے پر ایڈہاک کونسل بنا دی ہے تمام معاملات وہ دیکھے گی۔

پاکستان میڈیکل ڈینٹل کونسل توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پی ایم ڈی سی کی ایڈہاک کونسل بنا دی گئی ہے، اب اس میں مزید کچھ نہیں رہا۔

پی ایم ڈی سی ملازمین کے وکیل نے موقف اپنایا ابھی تک انہیں سپریم کورٹ کے فیصلے کی مصدقہ نقل ہی نہیں ملی، عدالت کے سامنے وہ فیصلہ نہیں، جس پر جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے ایسا کوئی آرڈر پاس ہی نہیں کیا ؟ کیا آپ یا رجسٹرار پی ایم ڈی سی سپریم کورٹ کی سماعت میں موجود تھے ؟

وکیل درخواست گزار کا کہنا تھا کہ وہ خود سماعت کے موقع پر نہیں تھے مگر رجسٹرار پی ایم ڈی سی عدالت میں موجود تھے، ابھی تک پی ایم ڈی سی ملازمین کو تنخواہیں نہیں دی جا رہیں۔

فاضل جج نے کہا کہ رجسٹرار پی ایم ڈی سی موجود تھے تو انہوں نے عدالت میں کوئی بات نہیں کی ؟ جو باقی معاملات دیکھ رہے ہیں تنخواہ کا معاملہ بھی اب وہی دیکھیں گے ، ڈاکٹرز رجسٹریشن اور ملازمین کی تنخواہوں کے معاملات اب ایڈہاک کونسل دیکھے گی۔

 

 

 

سابق وفاقی وزیر تعلیم بلیغ الرحمنٰ نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے جنوبی پنجاب میں علاقائی مرکز بند کئے جانے کو افسوس ناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کا یہ مرکز اگر چہ ذیلی تھا جو جنوبی پنجاب کے عوام کی سہولت کے لئے کھولا گیا تھا اوربڑھتی ہوئی ضرورت کے پیش نظر اس کا دائرہ اور اختیار بڑھا کر اسے چاروں صوبوں کی طرز پر علاقائی دفتر کے مساوی کردینا چاہئے تھا کیونکہ اس مرکز سے ہر سال ہزاروں طلبہ استفادہ کرتے تھے مگر اس کے برعکس اقدام کر کے اسے بند کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جنوبی پنجاب میں تعلیم اور صحت کی سہولتیں بڑھانے کے بجائے کم کی جارہی ہیں اور یہ سب کچھ جنوبی پنجاب کے اتحاد کے نام پر قائم پارٹیوں کی موجودگی میں ہورہا ہے ، ہم اسے ہرگز برداشت نہیں کریں گے اور اس معاملے کو قومی اسمبلی اور سینٹ میں اٹھایا اور جنوبی پنجاب میں ایچ ای سی کے علاقائی مرکز کو دوبارہ بحال کرایا جائے گا۔

 

عدالت عظمیٰ کی جانب سے پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کو چلانے کے لیے 9 رکنی ایڈ ہاک کونسل کا پہلا اجلاس منگل 21 اپریل کو اسلام آباد میں دوپہر 12 بجے طلب کرلیا گیا ہے۔

یہ اجلاس انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا جس میں وہ تمام اقدامت زیر بحث آئیں گے جنھیں پاکستان میڈیکل کونسل ( پی ایم سی) نے ختم یا تبدیل کردیا تھا ان اقدامات میں مرکزی داخلہ پالیسی، میڈیکل کالجوں کی جانب سے فیسوں کا تعین، فیکٹی کی تعداد، نان ڈاکٹرز کی بطور فیکلٹی تعیناتی، رجسٹریشن اور غیرممالک سے ایم بی بی ایس کرنے والے ڈاکٹرز کے مسائل شامل ہوں گے.

اسلام آباد میں مقیم ایڈہاک کونسل کے ایک رکن نے بتایا کہ ہماری کوشش ہوگی جو چیزیں پی ایم سی نے خراب کی تھیں انھیں جلد درست کرلیا جائے تاہم مشکل یہ ہے کہ ہمیں وزارت صحت کا تعاون حاصل نہیں ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ بہتر ہوگا کہ جتنی جلد ہو ماضی کی طرز پر پی ایم ڈی سی کے انتخاب کراکر اسے منتخب نمائندوں کے حوالے کردیا جائے۔

ایڈ ہاک کونسل کے ممبران میں اٹارنی جنرل، سرجن جنرل آفس پاکستان، وائس چانسلر نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز، وائس چانسلر یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، وائس چانسلر سندھ جناح میڈیکل یونیورسٹی، وائس چانسلر خیبر میڈیکل یونیورسٹی، وائس چانسلر شہید ذوالفقار علی بھٹو میڈیکل یونیورسٹی، وائس چانسلر بولان میڈیکل یونیورسٹی کوئٹہ، پرنسپل مونٹ مورینسی کالج آف ڈینٹسٹری لاہورشامل ہوں گے۔

 

محکمہ اسکول ایجوکیشن نے پرائیویٹ اسکولوں کے دفاتر کھولنے کیلئے اصول وضع کر دیئے.اس حوالے سے اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے نوٹیفکیشن اوررپورٹ لاہورہائیکورٹ میں جمع کروادی۔

نوٹیفیکشن میں کہا گیا ہے پرائیویٹ اسکول انتظامیہ کو درپیش مسائل کے حل کیلئے تشکیل کمیٹی نے چند فیصلے کئے ہیں۔ جس کے تحت کورونا وائرس کےخدشے کے پیش نظر تمام سرکاری اور پرائیویٹ اسکول 31 مئی تک بند رکھے گئے ہیں جبکہ پرائیویٹ اسکولوں کے انتظامی دفاتر 20 سے 25 اپریل تک کھولنےکی اجازت ہو گی۔

جو پرائیویٹ اسکول اساتذہ اور ملازمین کی تنخواہیں اکائونٹس میں منتقل کر سکتے ہوں وہ بینک کا ذریعہ استعمال کریں۔ پرائیویٹ اسکول کھولنے کیلئے 2 افراد کو اجازت ہو گی اور صرف اسکول کا اکائونٹنٹ اور پرنسپل یا ایڈمنسٹریٹر اسکول کا دفتر کھول سکے گا۔

پرائیویٹ اسکولوں کے انتظامی دفاتر صبح 9 سے دوپہر 1 بجے تک کھولنے کی اجازت ہو گی۔ ان اوقات میں پرائیویٹ اسکولوں کی انتظامیہ کے اہلکار ماسک پہننے کے پابند ہونگے جبکہ پرائیویٹ اسکولوں کےدفاتر کھولنے کے دوران سماجی فاصلے کا خاص خیال رکھا جائے۔

نوٹیفکیشن میں یہ بھی کہا گیا پرائیویٹ اسکولوں کی انتظامیہ کو دفاتر میں ہجوم اکٹھا کرنے کی ہرگز اجازت نہیں ہو گی۔ اسکولوں کی انتظامیہ سماجی فاصلے کو برقرار رکھنے کے لئے خاص اقدامات بھی کریں اور ایک دن میں صرف ایک کلاس کے پرائیویٹ اسکولوں کے اساتذہ کو بلایا جا ئے۔

پرائیویٹ اسکولوں کے انتظامی دفاتر کھولنے کے مقصد کیلئے صابن اور ہینڈ سینیٹائزرز بھی رکھے جائیں۔ کسی بھی طالبعلم کو کسی بھی مقصد کیلئے اسکول جانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اسکولوں کے بیت الخلاء اور دیگر جگہوں کو کلورین سپرے کے ذریعے جراثیم سے پاک کیا جائے۔

فیس کے حوالے سے نوٹیفکیشن میں کہا گیاہےکہ محکمہ اسکول ایجوکیشن ماہ مئی اور جون میں پرائیویٹ اسکولوں کے انتظامی دفاتر کھولنے کیلئے علیحدہ سے نوٹیفیکیشن جاری کرے گا۔

ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹیز کے ذریعے پرائیویٹ اسکولوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر بھی رکھی جائے گی۔

این ای ڈی یونیورسٹی نے ضیاء الدین یونیورسٹی ایگزامینشن بورڈ کے طلبہ کے لیئے 18 نشستیں مختص کر دیں ، دیگر جامعات اور انسٹی ٹیوشنز نے بھی نشستیں مختص کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔

ضیا ء الدین یونیورسٹی ایگزامینشن بورڈ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پروفیسرانوار احمد زئی نے سندھ بھر کی جامعات کو ضیاء الدین یونیورسٹی ایگزامینشن بورڈ کے تحت انٹر کے طلبہ کے لیئے داخلے کی سیٹیں مختص کرنے کے لیئے خطوط روانہ کئے۔ جس پر دیگر جامعات کی طرح این ای ڈی یونیورسٹی نے خط کا جواب دیتے ہوئے ضیا ء الدین یونیورسٹی ایگزامینشن بورڈ کے امتحانات میں کے کامیاب طلبہ کے لیئے ابتدائی طور پر 18 نشستیں مختص کی ہیں ۔

رواں سال این ای ڈی یونیورسٹی میں بیچلر کے داخلے میں پری انجینئرنگ کے طلبہ انٹری ٹیسٹ دے کر اپنی صلاحیت کا مظاہر ہ کریں گے۔ اس کے علاوہ دیگر پیشہ ورانہ جامعات اور ڈگری ایوارڈنگ انسٹی ٹیوشنز نے بھی ضیاء الدین ایگزامینشن بورڈ کے طلبہ کو داخلے کی غرض سے نشستیں مختص کرنے اور اْن کے طلبہ کو انٹر ی ٹیسٹ میں شامل ہونے کا عندیہ دیا ہے۔

ضیاء الدین یونیورسٹی ایگزامینشن بورڈ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر پروفیسر انوار احمد زئی نے ضیاء الدین یونیورسٹی چانسلر ڈاکٹر عاصم حسین اوراین ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش لودھی کا شکریہ ادا کیا ہے۔

تعلیمی حلقوں نے ضیاء الدین بورڈ کے طلبہ کو این ای ڈی یونیورسٹی کے انٹری ٹیسٹ میں شامل ہونے اور دیگر جامعات میں داخلے ہونے کی اطلاع کو تعلیم دوست اور خوش آئند قرار دیا۔

 

 

سپریم کورٹ کی جانب سے پی ایم ڈی سی کو چلانے کے لیے 9 رکنی ایڈ ہاک کونسل کے قیام سے غیر ممالک سے ایم بی بی ایس کرنے والے ڈاکٹرز کے لئے روشن امید پیدا ہوگئی ہے۔

چین اور دیگر ممالک سے ایم بی بی ایس کرنے والے سیکڑوں ڈاکٹرز گزشتہ ایک سال سے ریذیڈنٹ میڈیکل پرمٹ( آر ایم پی) کے حصول کے لئے ترس رہے تھے کیونکہ ہاؤس جاب کرنے کیلئے اس پروویژنل لائسنس کو لازمی قرار دیا جاتا ہے۔ اس دستاویز کے بغیر غیرممالک کے ڈگری ہولڈر ڈاکٹر کسی قسم کی تربیت کے اہل نہیں ہوسکتے۔

پی ایم ڈی سی افسر کا کہناہے کہ پی ایم ڈی سی بحال ہوتے ہی روزانہ سیکڑوں سرٹیفکیٹس بنائے جارہے ہیں۔10اور20فروری 2020کو نیشنل یونیورسٹی آف میڈیکل سائنسز کی جانب سے سی ایم ایچ راولپنڈی میں نیب کا تیسرا امتحان لیا گیا۔ یہ امتحان بیرونِ ملک سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لے کر آنے والے ڈاکٹرز کے لئے لازمی قرار دیا جاتا ہے جو تین اسٹیپس پر مشتمل ہوتا ہے اور اس کے بعد یہ طلبا اپنے ملک میں پریکٹس کے اہل قرا دیئے جاتے ہیں۔

اس امتحان کے نتائج کا اعلان ٠٦ فروری ٢٠٢٠ کو ہوا تھا اور پورے پاکستان سے ایک ہزار ڈاکٹر اس امتحان میں کامیاب بھی ہوئے۔ پچھلے تین ماہ سے یہ ڈاکٹرز اپنی آر ایم پی کا انتظار کر رہے ہیں اور اس اثناء میں متعدد اسپتالوں میں ہاؤس جاب انڈکشن کا پراسیس جاری ہو چکا ہے۔

کراچی کے ڈائو یونیورسٹی اسپتال اوجھا کیمپس میں ڈاکومنٹ جمع کرانے کی آخری تاریخ قریب ہے۔اور ان کی ضرورت کے تحت آر ایم پی یا آر ایم پی کے حصول کیلئے دی جانیوالی درخواست جمع کرانے کی رسید کا ہونا لازم ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس دونوں میں سے کچھ بھی نہیں ہے۔ پی ایم ڈی سی کی طرف سے کوئی رجسٹریشن فارم نہیں جاری کیا گیا البتہ سابقہ پی ایم سی کی جانب سے پرویژنل رجسٹریشن فارم جاری کیا گیا تھا اور اس کے تحت بہت سے ڈاکٹروں نے فارم جمع بھی کرائے۔

اس حوالے سے پی ایم ڈی سی کا کہنا ہے کہ جن ڈاکٹروں نے پی ایم ڈی سی کے تحت فارم جمع کرواۓ ہیں ان کے فارم اور ایک ہزار روپے کا بینک چالان انکو واپس کر دیا جائے گا۔ وہ اسے ریفنڈ کرا لیں۔ جیسے ہی وزارت صحت سے تیسرے مرحلے میں پاس ڈاکٹروں کی لسٹ پہنچے گی آر ایم پی پر کام شروع کر دیا جائے گا۔

فارن ڈاکٹرز کمیونٹی کا کہنا ہے کہ اگر اس کام میں تاخیر ہے تو پی ایم ڈی سی کو چاہیے کہ تمام نجی و سرکاری اسپتالوں کو خط جاری کیا جائے کہ رسیدوں کی بنیاد پر ہاؤس جاب کا اہل قرار دیں تاکہ ہمارا قیمتی وقت مزید ضائع ہونے سے بچ سکے اور ہماری ٹریننگ کا عمل شروع ہو۔

پی ایم ڈی سی کے ایک افسر نے بتایا کہ گزشتہ 6 ماہ سے بھی زائد عرصے سے سرٹیفکیٹس کے اجراء کا کام رکا ہوا تھا مگر پی ایم ڈی سی کے بحال ہوتے ہی سرٹیفکیٹس کا کام شروع کردیا تھا اور روزانہ سیکڑوں سرٹیفکیٹس بنائے جارہے ہیں، افسر کے مطابق ریذیڈنٹ میڈیکل پرمٹ کے فارموں کا ریکارڈ موجود ہی نہیں ہے امیدواروں کو دوبارہ رجوع کرنا چاہیے۔

 

ایچ ای سی کا جنوبی پنجاب دفتر بند کر دیا گیا، علاقائی دفاتر میں 17گریڈ کے انچارجز، طویل عرصے سے کوئی 20گریڈ کا ڈائریکٹر ہی نہیں بنا، ایڈ ہاک بنیادوں پر کام ہونے لگا۔

وفاقی ہائیر ایجوکیشن کمیشن جہاں کنسلٹنٹ کی بھرتی میں عجلت دکھارہی ہے وہیں اس نے جنوبی بنجاب میں ایچ ای سی کا علاقائی مرکز بند کردیا ہے جب کہ چاروں صوبوں میں قائم ریجنل دفاتر کے سربراہ جو 20 گریڈ کے ڈائریکٹر جنرل ہوتے تھے وہاں 17اور 18گریڈ کے افسران لگا کر ایڈہاک بنیادوں پر کام چلا کر ان کی اہمیت ہی ختم کر دی ہے۔

سابق وزیر تعلیم بلیغ الرحمان کے دور میں جنوبی پنجاب کی اہمیت اور عوام کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے جنوبی پنجاب کے شہر بہاول پور میں ریجنل دفتر قائم کیا گیا تھا تاہم اسے بند کردیا گیا ہے اور جنوبی پنجاب کے لوگوں کو لاہور کے علاقائی دفتر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ پنجاب کے شہر لاہور میں قائم علاقائی دفتر میں 19گریڈ کے ڈائریکٹر شہباز عباسی کو انچارج مقرر کیا گیا ہے جبکہ پنجاب میں جامعات کی تعداد 70ہے۔

خیبر پختونخوا کے علاقائی مرکز پشاور میں 20گریڈ کے ڈائریکٹر جنرل کی گزشتہ سال ستمبر میں ریٹائرمنٹ کے بعد وہاں 17گریڈ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شفیع الرحمان کام کر رہے ہیں جب کہ خیبر پختونخوا میں جامعات کی تعداد 40ہے۔

بلوچستان کے علاقی مرکز کوئٹہ کے دفتر میں گزشتہ سال مئی میں 20 گریڈ کے ڈی جی کی ریٹائرمنٹ کے بعد 17 گریڈ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر احسن حمید کو انچارج بنادیا گیا ، بلوچستان میں 9جامعات ہیں۔

سندھ کے علاقائی دفتر واقع کراچی میں طویل عرصے سے کوئی 20گریڈ کا ڈائریکٹر ہی نہیں،18گریڈ کے ڈپٹی ڈائریکٹر حکیم تالپورکو انچارج مقرر کر رکھا ہے جب کہ سندھ میں جامعات کی تعداد 60ہے۔

ہائر ایجوکیشن کی ترجمان عائشہ اکرم کا کہنا ہے کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن معیار اور رسائی دونوں پر یکساں توجہ دینے کے لئے منتقلی کے عمل سے گزر رہا ہے جس کے تحت کچھ عہدوں کی تنظیم نو کی جائے گی اور دوسروں کو مرحلہ وار ختم کیا جائے گا جبکہ کچھ نئی جگہیں تشکیل دی گئی ہیں، اس دوران تمام خدمات کو عام سطح پر برقرار رکھا جائے گا۔

 

 

 

 

 

محکمہَ صحت، حکومتِ سندھ کی کیمیکوبیکٹیریولوجیکل لیبارٹری (سی بی ایل) کراچی کا توسیعی و ترقیاتی کام آئیندہ چار سے پانچ مہینوں میں ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری جامعہ کراچی کی زیرِ نگرانی مکمل کیا جائے گا۔

 سی بی ایل کراچی کے توسیعی و ترقیاتی کام کاپہلا مرحلہ شروع ہوچکا ہے ، ایچ ای جے انسٹی ٹیوٹ یہ کام رضاکارانہ بنیادوں پر انجام دے رہا ہے۔

حکومتِ سندھ کی جانب سے لیبارٹری کی توسیع و ترقی بالخصوص آلات کی خریدوفروخت ، تیکنیکی اسٹاف کی تربیت وغیرہ کی مد میں بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی کو 8 کروڑ فراہم کرچکی ہے، جب کہ محکمہَ صحت اورآئی سی سی بی ایس، جامعہ کراچی کے درمیان دستخط شدہ مفاہمت کی یاد داشت کے مطابق محکمہَ صحت سندھ135ملین روپے بین الاقوامی مرکز کو کیمیکوبیکٹیریولوجیکل لیبارٹری کی توسیع و ترقی کی مد میں دے گا ۔

یہ بات آئی سی سی بی ایس جامعہ کراچی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹرمحمد اقبال چوہدری نے ہفتے کو ایچ ای جے ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری میں منعقدہ ایک اجلاس کے دوران کہی ، اجلاس میں ڈاکٹر شکیل احمد اور جاوید ریاض سمیت دیگر آفیشل بھی موجود تھے ۔

پروفیسر اقبال چوہدری نے کہا کہ سی بی ایل کراچی کی توسیع و ترقی کے حوالے سے کام کا پہلا مرحلہ شروع ہوچکا ہے، اس حوالے سے آلات کی خریدوفروخت کے لیے ٹینڈرنگ کا عمل مکمل ہوچکا ہے، لیبارٹری مینجر کی بھی تقری ہوچکی ہے، اس ترقیاتی کام کادوسرا مرحلہ ساءٹ کی تیاری سے متعلق ہے ۔

واضح رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں محکمہَ صحت سندھ اور بین الاقوامی مرکز جامعہ کراچی کے درمیان ایک مفاہمت کی یاد داشت پر دستخط ہوئے تھے جس کا مقصد کیمیکوبیکٹیریولوجیکل لیبارٹری کی توسیع و ترقی میں محکمہ صحت کی مدد کرنا تھا۔اس معاہدے پر دستخط صوبائی وزیرِصحت ڈاکٹر عزرا پیچو کی زیرِصدارت منعقدہ ایک تقریب کے دوران ہوئے تھے ۔

پروفیسر اقبال چوہدری نے کہا آئی سی سی بی ایس، جامعہ کراچی کو اعلیٰ تحقیقی ادارے قائم کرنے اور اُنھیں چلانے کا وسیع تجربہ ہے ،اور اس تجربے کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے سندھ حکومت کی کیمیکوبیکٹیریولوجیکل لیبارٹری کی ترقی اور توسیع کے لیے بین الاقوامی مرکز اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر انجام دے رہا ہے۔

انھوں نے کہا اس پروجیکٹ کے تکمیل کے بعد سندھ کی کیمیکو لیبارٹری بنیادی کیمیائی تجربات کرنے کے قابل ہوجائے گی، اس پروجیکٹ کو قومی خدمت کے جزبے کے تحت پایہَ تکمیل تک پہنچایا جارہا ہے جو نہ صرف بین الاقوامی مرکز بلکہ پوری جامعہ کراچی کے لیے اعزاز کی بات ہے۔

 

 

محمد علی جناح یونیورسٹی کراچی کی پرفارمنگ آرٹس سوسائٹی کی سربراہ فریحہ خلیل نے کورونا وائرس کے خاتمے کی جنگ لڑنے والے قومی ہیروز جن میں ڈاکٹرز، نرس، پیرا میڈیکل اسٹاف، رینجرز، پولیس اور سوشل ورکرز وغیرہ شامل ہیں، ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے آن لائن پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا  ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے خلاف کامیابی کے لیے عالمی سطح پر مشترکہ جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ اس برے وقت میں اساتذہ آن لائن تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ کر اپنا کردار احسن طریقے سے انجام دے رہے ہیں اور اس جنگ میں برابر کے شریک ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کورونا سے تحفظ فراہم کرنے کیلئے کام کرنے والے قومی ہیروز کو آن لائن  خراج تحسین پیش کرنے کی مہم میں یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ اپنے ویڈیو بیانات اور نغمے سوسائٹی کو ارسال کریں جن میں سے منتخب ویڈیوز پرفارمنس سوسائٹی کے فیس بک پیج پر پوسٹ کی جائیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یونیورسٹی کے علاوہ دوسرے لوگ بھی قومی ہیروز کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے اپنے ویڈیوز بھیج سکتے ہیں۔

 

چین میں ہونے والی ایک تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ائیرکنڈیشنرز کورونا وائرس کو پھیلانے کا باعث رہے ہیں۔

جنوبی چین کے ایک ریسٹورنٹ میں جانے والے 3 خاندانوں کے 10 افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہونے پر اس حوالے سے تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ ائیرکنڈیشنر نے ان افراد کے درمیان وائرل ذرات کی منتقلی میں معاونت کی۔

گوانگزو سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کی اس تحقیق کے نتائج جریدے ایمرجنگ انفیکشنز ڈیزیز میں شائع کیے گئے جو کہ امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کا اوپن ایسز جریدہ ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ جنوری کے آخر میں گوانگزو شہر کے ایک ریسٹورنٹ میں ائیرکنڈیشنر سے ہوا کا مضبوط بہاؤ نے وائرل ذرات کو 3 میزوں تک پہنچایا۔

تحقیق کے مطابق کورونا مریض نے اگلے دن ریسٹورنٹ میں خاندان کے 3 افراد کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا، جس میں کھڑکی نہیں تھی بلکہ ہر منزل میں ایک ائیرکنڈیشنر موجود تھا اور 2 دیگر خاندان بھی اردگرد کی میزوں پر موجود تھے اور ایک میٹر کا فاصلہ تھا جبکہ اوسطاً ایک گھنٹے تک وہ لوگ وہاں موجود رہے۔

پہلے مریض میں اسی دن بخار اور کھانسی کی علامات سامنے آگئیں اور ہسپتال چلا گیا، اگلے 2 ہفتے میں اس کے خاندان کے مزید 4 افراد، دوسرے خاندان کے 4 اور تیسرے خاندان کے 3 افراد نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19 کے شکار ہوگئے۔

سائنسدانوں نے دریافت کیا کہ دوسرے اور تیسرے خاندان میں اس وائرس کے پہنچنے کی وجہ ریسٹورنٹ میں موجود پہلا مریض تھا۔

مزید تجزیے سے معلوم ہوا یہ وائرل ذرات ائیرکنڈیشنر کے وینٹی لیشن سے پھیلے۔

سائنسسدانوں نے دریافت کیا کہ اسی منزل پر پہلے مریض کے ساتھ 73 مزید افراد بھی کھانا کھا رہے تھے مگر ان میں بیماری کی علامات 14 دن کے قرنطینہ میں ظاہر نہیں ہوئیں اور ٹیسٹ بھی نیگیٹو رہے، اسی طرح ریسٹورنٹ کے عملے میں سے بھی کوئی متاثر نہیں ہوا۔

محققین کا کہنا تھا کہ تحقیق محدود پیمانے پر ہوئی کیونکہ اس میں تجربہ کرکے اس تھیوری کو آزمایا نہیں گیا، تاہم اس طرح کے مسئلے سے بچنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ ائیرکنڈیشنر کا استعمال کریں مگر کھڑکیوں کو بھی اکثر کھول لیں۔