ایمز ٹی وی (تجارت) اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے معاشی صورتحال کو اطمینان بخش قرار دیے جانے پر تبصرہ کرتے ہوئے ملک کے نامور معاشی تجزیہ کار مزمل اسلم نے کہا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنجز کا احاطہ نہیں کیا اور گرتی ہوئی برآمدات، حکومتی قرضوں میں اضافہ، ایگری کلچر سیکٹر کی منفی شرح نمو، خسارے میں چلنے والے اداروں کی ابتری سے معیشت پر پڑنے والے اثرات کو عوام کے سامنے اجاگر نہیں کیا گیا۔
مزمل اسلم نے کہا کہ بظاہر لگتا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے کڑے وقت میں حکومتی ساکھ کو سنبھالا دینے کی کوشش کی ہے اور گزشتہ مالی سال کے اعدادوشمار کو خوش کن انداز میں پیش کیا گیا ہے، اس وقت ترسیلات اور برآمدات میں ہونے والی متواتر کمی، بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ، براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری میں نمایاں کمی جیسے عوامل معیشت کے لیے میڈیم ٹرم کے لیے بڑے خدشات ہیں جن کی بنا پر معیشت کو ہرگز متوازن یا مستحکم قرار نہیں دیا جاسکتا۔
گزشتہ سہ ماہی کے دوران ٹیکس ریونیو کا ہدف بھی پورا نہیں ہوسکا اور نہ ہی کپاس کی پیداوار کے اہداف پورے کیے گئے، پاکستان کی آبادی کے بڑے طبقے کا انحصار زراعت پر ہے جبکہ زرعی شعبے میں منفی شرح نمو دیکھی جارہی ہے جس سے زراعت کے شعبے میں روزگار کے مواقع کم ہونے کے ساتھ اس شعبے سے ہونے والی آمدنی بھی متاثر ہورہی ہے۔
مزمل اسلم نے کہا کہ حکومت نے پاک چین اقتصادی راہداری کے نام پر ملک میں ترقیاتی منصوبوں اور عوامی سہولتوں کے لیے وفاق پر عائد ہونے والی ذمے داریوں سے بھی منہ پھیر لیا ہے اور ملک میں تمام انفرااسٹرکچر منصوبوں کا انحصار سی پیک پر کیا جارہا ہے، سی پیک اپنی مقررہ ٹائم لائن کے تحت آگے بڑھ رہا ہے تاہم پاکستان کے معاشی اور سماجی مسائل زیادہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں، حکومت اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے مہنگائی کی شرح میں کمی کا پرچار کیا جارہا ہے تاہم پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود ٹرانسپورٹ کے کرایوں میں کسی بھی قسم کی کمی نہیں ہوسکی۔
جائیدادوں کی قیمت بڑھنے سے مکانات کے کرائے بھی بڑھ رہے ہیں، اسی طرح طبی سہولتوں اور تعلیم کے شعبے کی زبوں حالی کی قیمت بھی عوام کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اپنی مدت کے چوتھے سال میں داخل ہونے کے باوجود خسارے میں چلنے والے اداروں کو بحال کرنے میں بری طرح ناکام ہے اور ان اداروں کے بیل آئوٹ پیکیج معیشت پر بوجھ بن رہے ہیں۔