ایمزٹی وی (تجارت)پاکستان سے آم کی برآمدات آج سے شروع کی جارہی ہیں۔ پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن کے رواں سیزن ایک لاکھ ٹن آم برآمد کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد کے مطابق گزشتہ سال پاکستان سے آم کی برآمدات ہدف سے زائد رہی تھیں۔ گزشتہ سیزن کے لیے ایک لاکھ ٹن آم کی برآمد کا ہدف مقرر کیا گیا تھا تاہم سیزن کے اختتام تک ایکسپورٹ ایک لاکھ 28ہزار ٹن تک پہنچ گئی تھی جس سے 68ملین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوا۔ وحید احمد کے مطابق رواں سیزن موسمیاتی تغیر کی وجہ سے پنجاب میں آم کی فصل کو شدید نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے ایکسپورٹ کا ہدف بھی محتاط رہتے ہوئے ایک لاکھ ٹن مقرر کیا گیا ہے۔ پنجاب میں آم کے علاقوں میں دیر تک سردی رہنے، ژالہ باری اور تیز ہواؤں کی وجہ سے پاکستان میں آم کی مجموعی پیداوار 18لاکھ ٹن میں سے 6لاکھ ٹن پیداوار متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ پاکستان میں آم کی مجموعی پیداوار میں پنجاب کا حصہ 67فیصد ہے جہاں سخت موسم کی وجہ سے 50فیصد پیداوار کو نقصان پہنچا ہے جبکہ موسم کے حتمی نتائج جون تک پنجاب کی فصل مارکیٹ میں آنے سے ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان سے آم دنیا کے 50ملکوں کو ایکسپورٹ کیا جاتا ہے تاہم رواں سیزن چین، امریکا اور ساؤتھ کوریا پر خصوصی توجہ مرکوز کی جائیگی۔ چین پاکستان کی وسیع منڈی بن سکتا ہے جہاں حکومت کے تعاون سے پاکستانی آم کی تشہیر اور مارکیٹنگ کے لیے خصوصی سرگرمیاں منعقد کی جائیں گی۔ وحید احمد کے مطابق رواں سیزن یورپی ممالک کو بھی پاکستان سے آم کی برآمدات بڑھانے پر توجہ دی جائیگی۔ رواں سیزن آم 650ڈالر فی ٹن قیمت پر ایکسپورٹ کیا جائے گا گزشتہ سیزن 680سے 700ڈالر فی ٹن تک قیمت پرآم ایکسپورٹ کیا گیا تھا۔ رواں سیزن رمضان اور آم کی ایکسپورٹ کا سیزن ایک ساتھ شروع ہورہے ہیں اس وجہ سے پاکستانی آم کے لیے مسلم ممالک سمیت مسلم آبادی والے مغربی ملکوں میں بھی بھرپور امکانات موجود ہیں تاہم پاکستان میں گڈز ٹرانسپورٹ کی طویل ہڑتال اور بندگاہوں پر کنسائمنٹس کی اژدہام کی صورتحال کی وجہ سے بھی آغاز میں ایکسپورٹ دباؤ کا شکار رہنے کا خدشہ ہے۔ وحید احمد کے مطابق کلائمٹ چینج اس وقت ہارٹی کلچر سیکٹر سمیت پورے زرعی شعبے کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے جس کا ٹیکنالوجی میں حل موجود ہے۔ علاوہ ازیں جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے فصلوں کو ژالہ باری سے تحفظ فراہم کیا جاسکتا ہے اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ سندھ اور پنجاب کی صوبائی حکومتیں آئندہ بجٹ میں ژالہ باری سے نمٹنے کے لیے ٹیکنالوجی کے لیے خصوصی فنڈز مختص کریں تاکہ زرعی معیشت کو پہنچنے والے اربوں روپے کے نقصان سے بچاجاسکے۔ وحید احمد نے وفاقی حکومت پر زور دیا کہ ہارٹی کلچر ایکسپورٹ کی لاگت کم کرنے کے لیے اپنا وعدہ پورا کرتے ہوئے آئندہ وفاقی بجٹ میں پھل اور سبزیوں کی ایکسپورٹ کے لیے 7فیصد مالی معاونت کا اعلان کیا جائے ساتھ ہی ایک فیصد ودہولڈنگ ٹیکس کا نفاذ سی اینڈ ایف کے بجائے ایف او بی پرائس پر کیا جائے کیونکہ پھل اور سبزیوں کی قیمت سے کہیں زیادہ فریٹ کی لاگت ہے۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ فضائی کمپنیوں کی جانب سے پاکستان کے ساتھ امتیازی پالیسی کا بھی سختی سے نوٹس لیتے ہوئے غیرملکی فضائی کمپنیوں کو مناسب فضائی کرایہ مقرر کرنے کا پابند کیا جائے۔ واضح رہے کہ غیرملکی فضائی کمپنیاں بھارت (ممبئی) سے لندن کے لیے آم کا فریٹ 1.26 ڈالر فی کلو گرام جبکہ پاکستان (کراچی) سے لندن کے لیے 1.70 ڈالر فی کلو گرام فریٹ وصول کررہی ہیں جس سے پاکستان کی لاگت میں اضافہ اور مسابقتی صلاحیت میں کمی ہورہی ہے۔