آڈٹ رپورٹ کے مطابق قومی ایئرلائن کے 457 ملازمین و افسران جعلی ڈگریوں کے حامل ہیں، جعلی ڈگریاں رکھنے والوں میں 16 پائلٹ، 33 ایئرہوسٹس بھی شامل ہیں۔
سپریم کورٹ میں پی آئی اے کرپشن کیس کی سماعت کے دوران ادارے کی 10 سالہ خصوصی آڈٹ رپورٹ پیش کردی گئی۔ عدالت نے پی آئی اے سے آڈٹ رپورٹ پر ایک ماہ میں جواب طلب کر لیا ہے۔
شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں فل بینچ نے کیس کی سماعت کی تاہم بینچ کے رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے کیس کی سماعت سے معذرت کر لی۔ عدالت نے مقدمہ چیف جسٹس کو بھجواتے ہوئے سفارش کی ہے کہ کیس ایسے بینچ میں مقررکیا جائے جس میں فاضل جج جسٹس یحییٰ آفریدی شامل نہ ہوں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پی آئی اے کا عالمی مارکیٹ شیئر 41 سے کم ہو کر22 فیصد پر آ گیا۔دس سال میں قومی ایئر لائین کے ڈومیسٹک مارکیٹ شیئر میں بھی 13 فیصدکمی ہوئی،گرائونڈ ہینڈلنگ سروس آئوٹ سورس کرنے سے 117 ارب کا نقصان ہوا جبکہ اعلیٰ عہدوں پر نان پروفیشنل افراد کو تعینات کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق پی آئی اے میں غیر ضروری بھرتیاں کی گئیں، فیول منیجمنٹ سے 460 ارب روپے بچائے جا سکتے تھے، سائبر نامی سافٹ ویئر کی خریداری سے 5.5 ارب کا نقصان ہوا ،غیر ضروری مرمت اور سفارشی انجینئرزکے باعث 31 ارب کا نقصان پہنچا، رپورٹ کے مطابق ڈیڑھ ارب روپے مالیت کے سپیئر پارٹس غیر ضروری طور پر لیے گئے،غلط کمرشل فیصلوں کے باعث 8.5 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق قومی ایئرلائن کے 457 ملازمین و افسران جعلی ڈگریوں کے حامل ہیں، جعلی ڈگریاں رکھنے والوں میں 16 پائلٹ، 33 ایئرہوسٹس بھی شامل ہیں۔
آڈٹ رپورٹ میں جعلی ڈگریوں پر 52 انجینئرز بھی بھرتی ہونے کا انکشاف کیا گیا ہے،قومی ایئرلائن میں 67 افسران بھی جعلی ڈگری ہولڈر ہیں، ملازمین مستقلی پالیسی کا بھی غلط استعمال ہوا، رپورٹ کے مطابق پی آئی اے میں بھرتیوں کیلیے کوئی میرٹ پالیسی نہیں۔
رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ پی آئی اے میں تبدیلی کیلیے تجربہ کار افراد پر مشتمل بورڈ تشکیل دیا جائے۔