ایمزٹی وی(سائنس اور ٹیکنالوجی) انڈونیشیا کے قدیم قبائلی ہزاروں برس سے سمندر کے کنارے رہتے ہیں، ان کی اکثریت کشتیوں میں رہتی ہے اور وہ کسی بیرونی آلے کے بغیر 13 منٹ تک پانی کے اندر رہتے ہوئے مچھلیوں کا شکار کرتے ہیں۔
ہ افراد باجائو قبائل سے تعلق رکھتے ہیں اور ایک عرصے سے ماہرین ان پر تحقیق کررہے ہیں۔ سائنس ایک عرصے تک ان کی اس حیرت انگیز صلاحیت کی وجہ جاننے سے قاصر رہی ہے کہ آخر وہ پانی کی گہرائی میں سانس لیے بغیر کیسے رہتے ہیں۔
انڈونیشیا میں باجائو افراد کو سمندری خانہ بدوش بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ زیادہ تر وقت کشتیوں اور پانیوں میں ہی گزارتے ہیں۔ کیمبرج یونیورسٹی کے ماہرین نے تحقیق کرکے بتایا ہے کہ ان کے جسم کا اہم عضو یعنی پِتّہ (اسپلین) بقیہ افراد کے مقابلے میں 50 فیصد بڑا ہوتا ہے جو انہیں پانی میں غیرمعمولی وقت تک رہنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پِتّے کی جسامت انسانوں کی پانی میں رہنے کی صلاحیت یا ڈائیو ریفلیکس میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
نسانوں کا اہم عضو پِتّہ دل اور دماغ کو آکسیجن کی تقسیم میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جیسے ہی دل کی دھڑکن سست ہوتی ہے، اہم اعضا کو خون زائد مقدار میں پہنچنا شروع ہوجاتا ہے۔ اس موقع پر پِتّہ سکڑتا اور پھیلتا ہے اور خون کے سرخ خلیات کو زیادہ بہتر انداز میں جسم میں گردش کرنے میں مدد دیتا ہے۔ عام افراد میں ضرورت کے وقت پِتّہ آکسیجن کی 9 فیصد مقدار بڑھاتا ہے لیکن انڈونیشیائی قبائلیوں میں اس کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے۔