پیر, 25 نومبر 2024


موسم سرما میں لوگوں کو زیادہ کھانوں کی خواہش ہوتی ہے: تحقیق

ایمز ٹی وی (اسپیشل رپورٹ) سردیوں میں وزن کیوں بڑھتا ہے اور خاص طور پر موسم سرما میں چکنائی والے کھانوں اور میٹھی اشیاء کی طلب سے مزاحمت کرنا کیوں مشکل ہو جاتا ہے۔ ان سوالوں کا جواب ایک نئی تحقیق نے دیا ہے جس کے مطابق انسانوں میں لاشعوری طور پر زیادہ کھانے کی خواہش ہے، جو اسے خاص طور پر موسم سرما میں زیادہ کھانے کے لیے تیار کرتی ہے۔

 

اس تحقیق میں حیاتیاتی سائنس سے وابستہ سائنس دانوں نے نوع انسانی میں موسم سرما میں زیادہ کھانوں کی خواہش کے لیے ارتقائی وضاحت پیش کی ہے۔ماہرین حیاتیات کے مطابق انسانی ارتقاء پر ایک فوری نظر ڈالنے سے پتا چلتا ہے کہ ابتدائی انسانوں میں موٹاپا خطرات سے مقابلہ کرنے یا بقا کے لیے ضروری تھا جبکہ دوسری طرف کم وزنی ہونا کمزوری کی علامت تھی۔

محققین کا کام مطالعہ جریدہ ' رائل سوسائٹی پروسیڈنگ بی' کی جنوری کی اشاعت میں 'فٹنس اینڈ فٹنس' کے عنوان  سے شائع ہوا ہے۔تحقیق بتاتی ہے کہ ابتدائی انسانوں میں زیادہ کھانے کی خواہش تھی اور ان میں موٹاپے سے بچنے کی محدود صلاحیت تھی جبکہ خاص طور پر ان میں موسم سرما میں زیادہ کھانوں کی شدید خواہش پائی جاتی تھی۔

 

یونیورسٹی آف ایگزیٹر اور برسٹل یونیورسٹی کی مشترکہ تحقیق کے مصنف اینڈریو ڈی ہیگینسن نے کہا کہ ہمارے اندر میٹھے اور غیر صحت مند کھانوں کی لالچ پر قابو پانے اور موٹاپے سے بچنے کے لیے ایک ارتقائی میکانزم اب تک نہیں ہے۔ پروفیسر ہیگینسن کہتے ہیں کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ فطرت نے ہمیں پیٹ بھر جانے کا احساس کرنے کی صلاحیت سے نوازا ہے لیکن، ہمارے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ مصنوعی کھانوں کے لیے بہت کم مزاحمت رکھتے ہیں۔انھوں نے مزیدکہا کہ کیونکہ آج کے جدید کھانوں میں مٹھاس اور ذائقہ زیادہ ہے، جو انسانوں میں کھانے کی خواہش پیدا کرتا ہے اور یہ خواہش بہت طاقتور ہوتی ہے کسی بھی کمزور ارتقائی میکانزم کے مقابلے میں جو ہمیں بتائے گا کہ اب کھانے سے ہاتھ روک لیا جائے۔

تحقیق کے شریک مصنف جان میک نیمارا نے کہا کہ موسم سرما میں جسم میں چربی کو برقرار رکھنے خواہش زیادہ مضبوط ہوتی ہےاس وقت قدرتی دنیا میں خوراک کی قلت ہوتی ہے اور یہ اس بات کی وضاحت بھی پیش کرتی ہے کہ کیوں ہم موسم سرما میں وزن میں کمی کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔

 

مزید جاننے کے لیے محققین نے ایک کمپیوٹر ماڈل کا استعمال کیا ہے جس نے یہ پیش گوئی کی کہ جانوروں کو  موسم سرما میں کتنی چربی کا ذخیرہ کرنا چاہیئے۔جو خوراک کی دستیابی اور کھانا تلاش کرتے ہوئے شکاریوں کی طرف سے ہلاک کیے جانے کے خطرے کی عکاس تھی۔ ماڈل میں فرض کیا گیا کہ ابتدائی انسانوں اور جانوروں نے اپنی بقا کی جدوجہد میں فطری انتخاب کے ساتھ تبدیل شدہ ماحول سے مطابقت رکھنے کی صلاحیت پیدا کی تھی، جس نے انھیں زندہ رکھا تھا اور بقا کی صلاحیت رکھنے والے انسانوں اور جانوروں کو فطری انتخاب نے صحت مند وزن برقرار رکھنے کی ایک بہترین حکمت عملی دی ہے۔ 

ماڈل سے ظاہر ہوا کہ جب جانوروں نے چربی کے ذخیرہ کی زیادہ سے زیادہ سطح سے تجاوز کیا اور توانائی کے لیے کھانے کی بڑی مقدار حاصل کی تو اس کا ان پر بہت تھوڑا نقصان ظاہر ہوا۔ بالکل اسی طرح کی صورت حال میں  انسانوں کے لاشعور میں وزن پر قابو رکھنے کا میکانزم کمزور پڑ جائے گا اور مزیدار کھانوں کے سامنے بے بس ہو جائے گا۔

 

شریک مصنف السدیر ہیوسٹن نے مزید کہا کہ ماڈل پیش گوئی کرتا ہے کہ جانوروں کو اس وقت وزن میں اضافہ کرنا چاہیئے جب خوراک تلاش کرنا مشکل ہوتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تمام جانوروں بشمول انسانوں میں موسمی اثرات ظاہر ہوتے ہیں جو انھیں وزن بڑھانے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ بقول پروفیسر ہیوسٹن جسم میں چربی کا ذخیرہ کرنا دراصل خوراک تلاش کرنے میں ناکامی کے خطرے کے خلاف ایک طرح سے زندگی کی ضمانت ہے جبکہ صنعتی انسانوں سے پہلے کا انسان موسم سرما میں ایسا کرتا تھا۔

لہذا ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ مارچ اور نومبر کے درمیانی مہینے وزن کم کرنے کے لیے سازگار ہوتے ہیں کیونکہ، ان مہینوں میں ہمارا لاشعور ہمیں ایک بعد دوسری اور تیسری چیز کھانے کے لیے مجبور نہیں کرتا ہے۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment