ایمز ٹی وی (اسپیشل رپورٹ) پچھلے مطالعوں سے ظاہر ہوا تھا کہ انسان بڑی عمر میں پرخطر فیصلے کرنے سے گھبراتا ہے لیکن اگر آپ غربت میں پلے بڑھے ہیں تو یہ ایسا نہیں ہوتا ہے۔ یہ نتیجہ ایک نئی تحقیق کا ہے، جو بتاتی ہے کہ ایک غربت میں پلنے بڑھنے والا شخص ہر عمر میں خطرہ لینے کے لیے تیار ہوتا ہے۔
سوئس اور جرمن سائنس دانوں کے مطابق غربت انسان کو رسک لینے والا بنا دیتی ہے اور ان کی فیصلوں پر عمر سے زیادہ آمدنی کا اثر ہوتا ہے۔ نئے مطالعے کا انعقاد سوئٹزرلینڈ کی باسل یونیورسٹی اور جرمنی کی میکس پلینک انسٹی ٹیوٹ فار ہیومن ڈویلپمنٹ سے منسلک تحقیق کاروں نے کیا تھا، جس میں وہ یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ 'غربت' اور 'آمدنی میں مساوات' کا دنیا بھر کے ملکوں میں رہنے والے لوگوں کے رسک لینے کے طرز عمل پر کتنا اثر و رسوخ تھا۔
جریدہ 'سائیکالوجی سائنس' کے جنوری کے شمارے میں شائع ہونے والی تازہ ترین تحقیق میں دنیا کے غریب ممالک کے لوگوں میں جسمانی، سماجی، قانونی اور مالیاتی رسک لینے کی خواہش کا اظہار ہوا ہے۔
اس مطالعے کے لیے تحقیق کاروں نے ایک 'عالمی اقدار سروے' کے اعداد و شمار کا استعمال کیا ہے، جس میں دنیا کے 77 مختلف ممالک کے لوگوں کی اقدار اور ان کے خیالات کا تجزیہ کیا گیا تھا۔
مجموعی طور پر تحقیق کے مصنفین نے 148,117 شرکاء کے جوابات کی جانچ پڑتال کی، جن کی عمریں 15 سے 99 برس کے درمیان تھیں جبکہ ان میں 52 فیصد عورتیں اور 48 فیصد مردوں کے جوابات شامل تھے۔ شرکاء سے پوچھا گیا کہ وہ ایک سے لے کر چھ نمبر تک کے ایک پیمانے پر اپنی درجہ بندی کریں اور بتائیں کہ وہ کتنے بہادر ہیں اور رسک اٹھانے کے لیے خود کو کتنا تیار پاتے ہیں۔ محققین نے کہا کہ ہمیں یقین تھا کہ لوگ بڑی عمر تک پہنچنے کے بعد بہت کم ایسے فیصلے کرتے ہیں جن میں رسک ہوتا ہے۔
لیکن اس نتیجے کے برعکس نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ غریب ملکوں میں رہنے والے معمر افراد نے اس وقت اور بھی زیادہ خطرہ مول لیا تھا جب ان کے پاس زیادہ پیسے نہیں تھے۔ تحقیق کے سربراہ روئی ماٹا نے کہا کہ ہمیں ایسے شواہد ملے ہیں جو بتاتے ہیں کہ جن ممالک میں غربت ہے اور رہنے کے لیے مشکل حالات ہیں وہاں لوگوں میں رسک لینے کی خواہش ہوتی ہے بلکہ یہ بڑھاپے میں بھی زیادہ ہے۔
'کوگنیٹیو اینڈ ڈیسیشن' سائنس کے شعبے سے وابستہ اسسٹنٹ پروفیسر روئی ماٹا نے کہا کہ ''اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ایسے ممالک جہاں وسائل کی قلت ہے وہاں امیر ممالک کے مقابلے میں لوگوں کا ایک دوسرے کے ساتھ شدید مقابلہ ہے''۔ انھوں نے مزید کہا کہ ''ان ممالک میں ہر کوئی خطرے کو ایک ہی نقطئہ نظر سے نہیں دیکھ رہا تھا ۔''
بلکہ ایک شخص کی انفرادی جدوجہد، اقتصادی اور سماجی غربت اور ایک ملک میں بچوں کی شرح اموات، فی کس آمدنی اور آمدنی میں عدم مساوات کے درمیان تفریق اس بات کا تعین کرتی ہے کہ وہاں کے لوگ خطرہ لینے والے ہیں یا نہیں۔ جیسا کہ نائجیریا، مالی اور پاکستان میں امیر ممالک مثلاً جرمنی، روس یا امریکہ کے لوگوں کی طرح عمر گزرنے کے بعد خطرہ لینے کے طرز عمل میں کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔
تحقیق کے شریک مصنف رالف ہرٹوگ نے تحقیق سے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ انسانوں میں خطرہ لینے کے طرز عمل کی جانچ پڑتال کرنے کے لیے ماحول پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مختلف ثقافتوں میں لوگ عمر بڑھنے کے ساتھ ایسے فیصلے کم کرتے ہیں جن میں نقصان کا خطرہ ہو لیکن، غریب ملکوں میں عمر اور خطرہ لینے کے درمیان تعلقات وہاں کے لوگوں کی مقامی ضروریات اور ماحولیات پر منحصر ہیں۔
محققین نے کہا کہ ان کے اگلے مطالعہ میں لوگوں کی صحت، کرئیر اور ان کی فارغ وقت کی سرگرمیوں اور سماجی زندگی پر نظر رکھی جائے گی، تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کونسی عمر سے انسان خطرے لینا کم کر دیتا ہے اور اپنے جان کے تحفظ کو زیادہ اہمیت دینے لگتا ہے۔