جمعرات, 28 نومبر 2024


افغان پناہ گزینوں کو تعلیم دینے والی عقیلہ آصفی ایک اور اعزار کے لیے نامزد

ایمز ٹی وی (اسپیشل رپورٹ) پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے کیمپ میں لڑکیوں کو تعلیم دینے والی ایک غیر معمولی استانی عقیلہ آصفی کو 'دنیا کے بہترین ٹیچر کے انعام' کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔ 49 سالہ افغانی استانی عقیلہ آصفی کی خدمات کو تسلیم کرتے ہوئے وار کی فاؤنڈیشن کی جانب سے انھیں تعلیم کے سب سے بڑے اعزاز 'گلوبل ٹیچر پرائز 2016' کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔

 

معروف برطانوی سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ نے اس سال کے بہترین ٹیچر کے لیے نامزدگیوں کا اعلان کیا ہے۔ اس فہرست میں دنیا کے پانچ براعظموں سے  10 قابل اساتذہ کو شارٹ لسٹ کیا گیا ہے ۔ نوبل طرز کے عالمی انعام کے لیے نامزد امیدواروں میں ہائی ٹیک لیبارٹری کے استاد سے لے کر پناہ گزین کیمپ کی ایک استانی عقیلہ آصفی کا نام بھی شامل ہے ۔ جنھوں نے انتہائی قدامت پسند افغانی کمیونٹی میں خواتین کی تعلیم کی طرف رویوں کو تبدیل کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے ۔

گلوبل ٹیچر پرائز ایک ملین ڈالر کا انعام ہے۔جو ہر سال ایسے قابل استاد کو دیا جاتا ہے جنھوں نے اپنی غیر معمولی خدمات کے ساتھ ٹیچنگ کے پیشے میں نمایاں حصہ ڈالا ہے ۔ گلوبل ٹیچر پرائز کے مطابق عقیلہ پاکستان میں میانوالی کے ایک پسماندہ علاقے کوٹ چاندنہ میں پناہ گزینوں کے کیمپ کی ایک استاد ہیں ،جہاں تقریبا ایک ہزار سے زائد لڑکیاں زیر تعلیم ہیں ۔عقیلہ آصفی نے افغانستان میں ایک استاد کی تربیت حاصل کی تھی لیکن، خانہ جنگی کےزمانے میں ان کے خاندان کو مجبورا افغانستان سے پاکستان ہجرت کرنی پڑی ۔

 

دو عشرے قبل جب وہ ہجرت کر کے صوبہ پنجاب کے ضلع میانوالی میں منتقل ہوئی تو وہاں مقامی آبادی کے لیے اسکول کی سہولت نہیں تھی ۔خاص طور پر رویات پسند افغانی گھرانوں میں لڑکیوں کی تعلیم کا تصور موجود نہیں تھا ۔ عقیلہ نے ایک  ادھار کے خیمے میں لڑکیوں کے لیے تدریس کا آغازکیا اور قدامت پسندانہ رویوں پر قابو پانے کے لیے سخت محنت کی ۔انھوں نے شروع شروع میں 20 خاندانوں کو لڑکیوں کی تعلیم کے لیے آمادہ کیا۔

 ابتدائی دنوں میں انھوں نے اپنی توجہ غیر متنازعہ موضوعات مثلا ذاتی حفظان صحت ،گھر کے انتظام کی مہارت اور مذہبی تعلیم پر رکھی اور اپنی کمیونٹی کا اعتماد حاصل کیا۔ جس کے بعد انھوں نے اسکول میں داری زبان ،ریاضی ،جغرافیہ اور تاریخ کے مضامین متعارف کرائے ۔ عقیلہ کہتی ہیں کہ اسوقت اسکول کے وسائل اتنے نہیں تھے کہ کلاس کے لیے تختہ سیاہ خریدا جاسکے لہذا وہ کپٹرے کے ٹکٹروں پر ہاتھ کی سلائی سے مضامین لکھا کرتی تھیں ۔جسے اسباق پڑھانے کے لیے خیمے کی دیواروں پر لٹکایا جاتا تھا ۔

انھوں نے جب پہلی بار اسکول شروع کیا تو طلبہ دھول کے فرش کو سلیٹ کے طور پر استعمال کرتے تھے ۔ تاہم آج ان کے اسکول کی عمارت ہے اور اسکول کے طلبہ کے پاس اپنی کتابیں ،قلم اور کاپیاں ہیں جبکہ آج اس کیمپ میں 9 اسکول ہیں جہاں لگ بھگ پندرہ سو طلبہ زیر تعلیم ہیں ۔ 2015میں عقیلہ آصفی کو اقوام متحدہ کی جانب سے نینسن رفیوجی ایوارڈ سے نوازا گیا ہے ۔

 

عالمی ٹیچنگ کا انعام جیتنے کی دوڑ میں عقیلہ آصفی کے ساتھ  بھارت سے نوجوان استانی رابن چوراسیا اور فلسطینی استانی ھنا ال ھروب کا نام بھی شامل ہے ۔ علاوہ ازیں دو امریکی اساتذہ ،برطانیہ ،کینیا ،انڈونیشیا ،فن لینڈ اور آسٹریلیا سے ایک ایک بہترین استاد کو فائنلسٹ کے طور پر منتخب کیا گیا ہے ۔ٹاپ فائنلسٹ میں سے فاتح استاد کے نام کا اعلان دبئی میں 13مارچ کو گلوبل ایجوکشن اینڈ اسکلز فورم کی تقریب میں کیا جائے گا ۔

گلوبل ٹیچر پرائز دبئی کی ایک غیر سرکاری تنظیم وارکی فاونڈیشن کی جانب سے دیا جاتا ہے ۔جس کے سرپرست متحدہ عرب امارات کے نائب وزیر اعظم اور دبئی کے حاکم شیخ محمد بن راشد المکتوم ہیں ۔

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Media

Leave a comment