ایمزٹی وی(تعلیم)انٹر بورڈ کے ڈپٹی کنٹرولر دبیر احمد نے اپنے بیانات میں اعلی افسران کے نام اگل دیئے ہیں ‘اینٹی کرپشن نے دبیر احمد اور عادل انور کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے جبکہ دیگر اعلی افسران کے نام تحقیقات میں سامنے آنے پر مقدمے میں شامل کئے جائیں گے جبکہ دوسری جانب اینٹی کرپشن حکام نے کاپیاں انکوائری کو مکمل کئے بغیر واپس کرنے سے انکار کردیا ہے ۔
تفصیلات کے مطابق انٹر بورڈ حکام کی جانب سے نتائج کو جلد جاری کرنے کے حوالے سے اینٹی کرپشن حکام سے کاپیاں واپس کرنے کی استدعا کی تھی جس کے بعد کاپیاں واپس کرنے پر انکار کردیا گیا ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ انکوائری کو منطقی انجام تک پہنچانے اور مکمل کئے بغیر کوئی بھی کاپی نہیں کی جائے گی ۔
اینٹی کرپشن کے ہاتھوں ہفتہ کی شب کو 12بجے انٹر بورڈ کے ڈپٹی کنٹرولر دبیر احمد کو گرفتار کیا گیا تھا جس کے بعد دوسرے روز ان کو اتوار کی شب حفاظتی ضمانت کی وجہ سے چھوڑ دیا گیا تھا ‘جس دروان دبیر احمد کی جانب سے مبینہ طور پر تعاون کے بطور تحقیقات میں انکشاف کیا گیا کہ وہ مڈل مین کے طور پر کام کرتا تھا جب کہ ان سے اعلی انتظامی عہدوں پر بھی افسران اس کی مدد اور سرپرستی کرتے تھے اور نچلے اسکیل کے ملازمین بھی ساتھ دیتے تھے جس کی وجہ سے دونوں ہی اپناحصہ وصول کرتے تھے ‘ذرائیع کاکہنا ہے کہ اینٹی کرپشن کی جانب سے ایف آئی اے کو ریکارڈ فراہم کیا گیا کہ بورڈ کے اعلی افسران کو بیرون ملک نہ جانے دیا جائے کیوں کہ انٹر بورڈ میں انکوائری چل رہی ہے ۔
اینٹی کرپشن ذرائع کا کہنا ہے کہ بورڈآفس میں چھاپوں کے دوران حاصل کی جانے والی کاپیاں انکوائری مکمل کئے بغیر کسی بھی صورت واپس نہیں کی جائیں گی ۔اینٹی کرپشن حکام کا کہنا ہے کہ کاپیاں واپس کرنے انکوائری مشکوک ہو جائیں گی جس کی وجہ سے انہیں تحویل میں ہی رکھا جاے گا۔
اینٹی کرپشن کی جانب سے انٹرم چالان جمع کرانے کے بعد ملزمان ڈپٹی کنٹرولر دبیر احمد اور عادل انوار کے خلاف مقدمہ بھی درج کرلیا گیا تاہم انکوائری کے دورا ن ثبوت سامنے آنے پر دیگر بھی افسران کے نام مقدمہ میں شامل کئے جائیں گے ۔حیرت انگیز طور پر اینٹی کرپشن کی جانب سے 11سو کے اعداو شمار کو بد ل کر 94تک محدور کیا گیا اور دبیر احمد اور عادل کے علاوہ کسی کو بھی شامل نہیں کیا گیا ہے جبکہ انکوائری میں ناظم امتحانات کو شامل نہ کرنا باعث تشویش ہے جس کی وجہ سے متعدد حلقوں کی جانب سے اس پر سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں
کاپیاں ا متحانی سیکشن کے کانفیڈنشل اور سیکریسی روم میں ہوتی ہیں جس میں مکمل کنڑول ناظم امتحانات کا ہوتا ہے جبکہ آخری دونوں مین ناظم امتحانات عمران چشتی اور اس سے قبل زرینہ چوہدری تھیں جن کے بارے میں کوئی بھی انکوائری نہیں کی گئی