ایمز ٹی وی (تعلیم) جامعہ اردو کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر اقبال نے کہا ہے کہ وفاقی اردو یونیورسٹی میں مافیا کا راج تھا جو طالب علموں سے فیس لے کر خود کھا جاتا تھا، ایک اندازے کے مطابق جامعہ اردو میں ہونے والے داخلوں کی مد میں ساڑھے 4 کروڑ روپے جامعہ کے اکاؤنٹ میں آنے چاہیے تھے لیکن صرف 22 لاکھ روپے جامعہ کے اکاؤنٹ میں جمع ہوئے۔ اس بات کا انکشاف وفاقی اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر اقبال نے جامعہ کے مالی اور انتظامی بحران پربریفنگ دیتے ہوئے کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جامعہ کی ترقی اور تعمیر کے لیے کوشاں ہیں، 2 سال قبل اسلام آباد کیمپس کے اکاؤنٹ میں 26 کروڑ روپے موجود تھے اورکراچی کیمپس میں 18 کروڑ روپے تھے، سابقہ انتظامیہ کی وجہ سے اکاؤنٹ میں صرف 22 لاکھ 80 ہزار روپے رہ گئے ہیں۔ سابقہ وائس چانسلر سلیمان ڈی محمد کو سندھ ہائی کورٹ نے منع کیا تھا کہ کسی قسم کی ٹرانسفر یا پوسٹنگ نہیں کی جاسکتی اس کے باوجود خلاف قانون انھوں نے 320 بھرتیاں کیں جس کی مد میں 8 کروڑ روپے سالانہ خرچ بڑھ گیا۔
ڈاکٹر ظفر اقبال نے کہا کہ اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی جانب سے 6 کروڑ روپے فنڈ ماہانہ ملتا ہے جبکہ تنخواہوں کی مد میں 9 کروڑ روپے ماہانہ ادا کرنے پڑتے ہیں، غیرقانونی بھرتیوں کے مقدمات عدالت میں ہیں عدالت حکم دے تو ہم اضافی بھرتی کیے گئے ملازمین کو نکال کر جامعہ کو بجٹ کے اندر لانے کی کوشش کریں گے، 2013 میں اعلیٰ تعلیمی کمیشن کی رینکنگ کے مطابق جامعہ 26 ویں نمبر پر تھی اور اب 32 ویں نمبر پر ہے۔
انھوں نے کہا کہ پچھلا دور سیاہ تھا وہ سب غیرقانونی لوگوں کا دور تھا اس دور میں طالب علموں کی تعداد 21 ہزار تھی جو اب کم ہو کر 9 ہزار رہ گئی ہے، اساتذہ اور طالب علموں کے لیے جلد ہی بائیو میٹرک نظام متعارف کرایا جائے گا اور لیباریٹریوں میں سامان فراہم کرنا، فارمیسی اور شعبہ قانون میں داخلے اس سال کے آخر میں شروع ہوجائیں گے۔ سائنس کے مختلف شعبہ جات میں 100 سے زائد طلبہ پی ایچ ڈی کرچکے ہیں اورشعبہ تصنیف وتالیف کو بھی فعال کردیا ہے۔ وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر اقبال نے صدر مملکت سے درخواست کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ اردو پیسے کے بغیر نہیں چلتی،جامعہ کی تعمیر کے لیے جو پیسے ملنے چاہیے تھے وہ نہیں ملے۔
اس وقت جامعہ کو کم از کم 5 ارب روپے گرانٹ کی ضرورت ہے تاکہ ہم جامعہ بہتر طور پر چلا سکیں، سابقہ انتظامیہ نے اسلام آباد کیمپس کے لیے 170 کمپیوٹر صرف کاغذات میں خریدے اور کمپیوٹر کبھی وہاں پہنچے ہی نہیں، 20 کے وی کے استعمال شدہ جنریٹر کی مد میں 80 لاکھ روپے ادا کیے گئے۔ مجموعی طور پر65 کروڑ روپے کی کرپشن ہوئی، صدر مملکت، نیب اور ایف آئی کو تمام شواہد ارسال کردیے ہیں کرپشن پر جو رپورٹ ایوان صدرارسال کی اس پر خصوصی آڈٹ ٹیم آئی ہوئی ہے جو اپنا کام کررہی ہے۔