ایمز ٹی وی (ایجوکیشن )جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد قیصر نے کہا کہ جامعات میں تحقیقی کلچر کے فروغ کے لئے اساتذہ کو اپنا قومی کردار ادا کرنا ہوگا۔ موجودہ جدید لیب میں مطلوبہ سہولتیں فراہم کردی گئیں ہیں،یہ دور جدید ٹیکنالوجی کا دور ہے جدید طرز تحقیق میں ڈیجیٹل لیب اور ٹیکنالوجی کے ذریعہ تحقیق سے اہداف کا حصول آسان ہوگیا ہے۔ خطے میں جیولوجیکل ریسرچ سے پورے ریجن کو مستفید ہونے کا استحکاق حاصل ہے۔ آج کرہ ارض پر معدنیات کے سروے ہوچکے ہیں ترقی یافتہ ممالک اس سے فیضیاب ہورہے ہیں۔ جامعات کے ریسرچرز کو جو وسائل حاصل ہیں وہ نافع تحقیق کا سبب بن سکتے ہیں جس کی مثال تھر کے وسیع و عریض کوئلے اور دوسری معدنیات کے ذخائر ہیں۔ کالاباغ ،سیالکوٹ اور بلوچستان میں سونے ، لوہے ،تانبے اور دیگر ذخائرقدرت کی عطاکردہ نعمتیں ہیں جو سائنسدانوں کے تحقیق اور تدبر سے حاصل ہوئیں ہیں۔ سندھ حکومت اور ایچ ای سی کو جامعات میں ریسرچ کے لئے خصوصی گرانٹ مہیا کرنا چاہیئے تاکہ تحقیق کا معیار ملک کے کام آسکے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے شعبہ ارضیا ت کی نئی عمارت کا افتتاح کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر رجسٹرار پروفیسر ڈاکٹر معظم علی خان،مشیر برائے شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر سہیل برکاتی ،پروفیسر ڈاکٹر مجید اللہ قادر،پروفیسر ڈاکٹر ندیم احمد خاں،رئیس کلیہ علوم پروفیسر ڈاکٹر وقار حسین اور پروفیسر ڈاکٹر شمیم اے شیخ بھی موجودتھے۔ رئیس کلیہ علوم پروفیسر ڈاکٹر وقار حسین نے کہا کہ نئی عمارت میں ایک ڈیجیٹل لیب ،چھ تدریسی کمرے،سیمینار لائبریری جو بہت کشادہ ہے۔ ڈیجیٹل اورکمپیوٹر ریسرچ لیب جدید آلات سے لیس ہیں یہ عمارت 10 ہزار مربع فٹ پر محیط ہے ،اس دومنزلہ عمارت پر 37 ملین روپے کی لاگت آئی ہے جو کہ ایچ ای سی کی گرانٹ سے تعمیر ہوئی ہے۔جس کا سنگ بنیاد بدست سابق شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضاصدیقی رکھا گیا تھا۔ ڈاکٹر وقار نے مزید کہا کہ ٹیکنالوجی کے دور میں تحقیق وتدریس کی اہمیت دوچند ہوگئی ہے ،اساتذہ بڑی دیانت اور لگن سے تحقیق وتدریس میں مصروف ہیں ۔
شعبہ ارضیات کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹرنعمت اللہ نے کہا کہ عصر حاضر میں ارضیات کی اہمیت اور فیلڈ ورک میں طلبہ کی شمولیت سے مثبت نتائج حاصل ہورہے ہیں ۔آخر میں انہوں نے کہا کہ شیخ الجامعہ ڈاکٹر محمد قیصر کی کاوشوں سے عمارت کی تکمیل ممکن ہوسکی ہے۔