کراچی: وفاقی اردو یونیورسٹی شعبہ اردو اورتحریک نفاذ ِ اردو پاکستان شعبہ خواتین کے تحت ”مجلس مذاکراہ یوم نفاذِ قومی زبان اردو“ کی تقریب منعقد کی گئی۔ شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر عارف زبیر نے خطابکرتے ہوئے کہا کہ وفاقی جامعہ ارد و قومی زبان کا واحد ادارہ ہے جس کی ترویج وترقی کے لئے بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اپنی پوری زندگی وقف کردی و، شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر عارف زبیروفاقی جامعہ ارد و قومی زبان اردو کا واحد ادارہ ہے جس کی ترویج وترقی کے لئے بابائے اردو مولوی عبدالحق نے اپنی پوری زندگی وقف کردی وفاقی جامعہ ارد و کا قیام ان کی انتھک محنت اور کوششوں کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے مزیدکہا کہ ہم اردو کی ترقی کے لئے کام کرنے والے دیگر اداروں کے ساتھ ملکر اردو کو ملک میں اسکا مقام دلوانے کی ہرممکن کوشش کریں گے۔ میں امید کرتا ہوں کہ سب مل کر جامعہ اردو کو ترقی کی راہوں پرگامزن کریں گے اس کو مثالی تعلیمی ادارہ بنانے میں ہمارے اساتذہ اہم کردار ادکر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اردو ترجمہ کیلئے سینٹرز قائم ہونے چاہئیں جامعہ کے اساتذہ نے سائنس اور دیگر علوم کانصاب اردو میں تیار کیا ہے۔
پروگرام کے مہمان خصوصی سابق میئر ڈاکٹر فاروق ستارجبکہ مقررین میں ڈاکٹر یاسمین سلطانہ،ڈاکٹر مبین اختر،صالحہ عزیز،ثمرین خان، آصف الیاس، ڈاکٹر ایس ایم ضمیر، امتیاز جاوید، فیصل بلوچ،افشاں نوید، کلیم علی خان،ڈاکٹر محمد ضیاء الدین،آصف الیاس،علاؤ الدین، رخسانہ صبا،طیب عاطف،وسیم احمد،ڈاکٹر سمیرا بشیر،ڈاکٹر رخسانہ صبا و دیگر شامل تھے۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ اہل زبان کا فروغ اہل زبان کی ذمہ داری بنتی ہے اردو زبان قومی وحدت کا ذریعہ ہے اردو کا یہ پودا اب تن آور درخت کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پروگرام کے منتظمین مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ہمیں دیگر زبانوں کے ساتھ اردو زبان پر بھی عبور حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔اردو کی ترویج کیلئے نئے تعلیمی ادارے قائم ہونے چاہیے۔کراچی دنیا کا تیسرا بڑا ثقافتی شہر ہے کراچی کو اس کا حق ملنا چاہیے۔ ڈاکٹر یاسمین سلطانہ نے کہا کہ اردو زبان ہمارا بہت بڑا اثاثہ ہے ہمیں اِس کو آگے لیکر چلنا ہے۔
مذاکراے میں مقررین نے کہا کہ 25فروری1948کے دن منظور ہونے والی شِق اور سپریم کورٹ کے2015کے فیصلے کے تحت ملک بھر میں اردو کے نفاذ کا پرزور مطالبہ کیا جس کے مطابق تمام دفاتر اور عدالتوں میں خط و کتابت اردو زبان میں کی جائے۔تدریسی نظام میں دہرے معیار کو ختم کرکے تعلیمی نظام کو اردو میں رائج کیا جائے تاکہ معاشرتی، طبقاتی فرق ختم ہوسکے۔