Friday, 29 November 2024


ہیلری کلنٹن اب بھی امریکہ کی صدر بن سکتی ہیں مگرکیسے۔۔۔؟ جانیے اس خبر میں

ایمزٹی وی(انٹرنیشنل) جی ہاں، امریکی الیکشن میں شکست کھانے کے باوجود ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار، ہیلری کلنٹن اب بھی امریکی صدر بن سکتی ہیں۔ یہ کرشمہ جنم لینے کی شرط یہ ہے کہ الیکٹورل کالج کے زیادہ ووٹ انہیں مل جائیں۔ آگے بڑھنے سے قبل اس عجیب وغریب ادارے کا تعارف ہوجائے۔جب امریکا آزاد ہوا، تو 1787ء کے آئینی کنونشن میں ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے امریکی صدر کے الیکشن کا طریق کار وضع کرنا تھا۔ تب عام خیال یہ تھا کہ عوام ہی نیا صدر منتخب کریں یعنی جو امیدوار زیادہ ووٹ لے، وہ نیا حکمران بن جائے۔ مگر کمیٹی میں شامل جنوبی امریکا کی ریاستوں کے نمائندوں نے مسئلہ کھڑا کردیا۔

جنوبی امریکا میں سفید فام جاگیردار، زمین دار وغیرہ بکثرت آباد تھے۔ یہ سبھی نسل پرست اور متعصب تھے۔ انہوں نے ہزارہا سیاہ فام اور ایشیائی غلام رکھے ہوئے تھے جن کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا۔ مگر مغربی امریکا کی ریاستوں میں تاجر، کاروباری اور کارخانے دار بستے تھے۔ اس خطّے میں امریکیوں کی اکثریت شہروں میں آباد تھی جو تعلیم عام ہونے کے باعث انسانی حقوق سے بتدریج آشنا ہورہے تھے۔ لہٰذا وہاں اب سیاہ فاموں کو کچھ حقوق ملنے لگے تھے۔

جنوبی امریکی ریاستوں میں مقیم امریکی لیڈروں کو خطرہ تھا کہ مستقبل قریب میں مغربی امریکی ریاستیں سیاہ فاموں کو ووٹ ڈالنے کا حق بھی دے سکتی ہیں۔ ایسی صورت میں قدرتاً مغربی امریکا کی ریاستوں کے ووٹ زیادہ ہوجاتے۔ چناںچہ ہر بار اسی علاقے کا صدر منتخب ہوتا اور یہ جنوبی امریکا کے لیڈروں کو قبول نہ تھا۔ وہ سمجھتے تھے کہ مغربی امریکہ سے تعلق رکھنے والا صدر اپنے خطے میں ہی سارے ترقیاتی کام کرائے گا۔غرض انھوں نے عوامی الیکشن سے صدر کے انتخاب کا طریق کار نامنظور کردیا۔ طویل بحث و مباحثے کے بعد طے پایا کہ ہر ریاست کے مخصوص’’معززین‘‘ امریکی صدر کا انتخاب کریں گے۔ ان معززین کا انتخاب الیکشن لڑنے والی پارٹیوں نے کرنا تھا۔

امریکا کو عموماً وہ دیس کہا جاتا ہے جہاں جمہوریت پھلی پھولی اور انسانی حقوق کے مطالبے نے نشوونما پائی۔ تاہم سچ یہ ہے کہ بانیان امریکا نے عوام سے غداری کرتے اور انہیں بے وقوف بناتے ہوئے امریکی صدر منتخب کرنے کا اختیار مٹھی بھر معززین کے حوالے کردیا۔ بیشتر امریکی عوام اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ نیا صدر ان کے ووٹوں سے بنتا ہے۔درحقیقت اسے منتخب کرنے کا اختیار معززین کے ہاتھوں میں ہے جنہیں ’’الیکٹرز‘‘(electors) کہا جاتا ہے۔ ان کا مجموعہ ہی ’’الیکٹرول کالج‘‘ کہلاتا ہے۔جب کہ ان کے ووٹوں کو ’’الیکٹرول ووٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ہر صدارتی الیکشن میں امریکی عوام دراصل انہی الیکٹرز کو ووٹ دیتے ہیں،امیدوار کو نہیں!

جنوبی امریکا کے لیڈروں کو یہ بھی خوف تھا کہ کانگریس (امریکی پارلیمنٹ) میں شہری علاقوں کے روشن خیال اور ترقی پسند امیدواروں کی کثرت ہوگی۔ (امریکا میں شروع سے شہری علاقوں کی آبادی زیادہ ہے) چناں چہ وہ غلامی اور جاگیرداری کے خلاف قوانین بناسکتے تھے۔ لہٰذا کانگریس میں اپنی اچھی خاصی موجودگی یقینی بنانے کے لیے انہوں نے لڑجھگڑ کر نشستوں کا ایسا فارمولا تیار کرایا کہ ہر ریاست سے کم از کم ایک سینٹر اور ایوان نمائندگان (قومی اسمبلی) کے دو ارکان ضرور لیے جائیں۔ یوں امریکی جاگیرداروں اور زمین داروں نے اپنے مفادات کو تحفظ کیا۔

امریکی صدر کا طرز الیکشن بنانے والی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ہر ریاست سے کانگریس کے جتنے ارکان منتخب ہوتے ہیں، وہ اتنے ہی الیکٹرز بھی رکھے گی۔ چناں چہ آج امریکی کانگریس کے 535 ارکان ہیں یعنی ایوان نمائندگان کے 435 اور سینٹ کے 100 رکن! گویا الیکٹرز کی تعداد بھی 535 ہے۔ تاہم اس میں امریکی دارالحکومت واشنگٹن کے تین الیکٹرز بھی شامل کیے جاتے ہیں۔ یعنی الیکٹرز کی کل تعداد 538 ہے۔صدارتی الیکشن سے قبل دونوں امریکی پارٹیاں ریاستوں میں الیکٹرز کا انتخاب کرتی ہیں۔ یہ عموماً پارٹیوں کے انتہائی وفادار لیڈر ہوتے ہیں۔ناقابل اعتماد الیکٹر تو ووٹ ڈالتے ہوئے بے وفا ہو سکتے ہیں۔اکثر ریاستوں میں بیلٹ پیپر پر صدارتی امیدوار کے نام کے نیچے الیکٹرز کا نام بھی درج ہوتا ہے۔

Share this article

Leave a comment