ایمز ٹی وی (تجارت) نجکاری کمیشن کے چیئرمین محمد زبیر کا کہنا ہے کہ چینی اور ایرانی سرکاری کمپنیاں خسارے میں چلنے والی پاکستان اسٹیل ملز (پی ایس ایم) کو طویل مدتی لیز معاہدے پر حاصل کرنے میں دلچسپی ظاہر کررہی ہیں۔1970 کی دہائی میں سوویت یونین کی جانب سے تعمیر کی جانے والی سرکاری کمپنی پاکستان اسٹیل ملز مسلسل خسارے میں جارہی ہے جبکہ 2015 سے یہاں فولاد سازی کا عمل بھی بند ہے۔پی ایس ایم کا خسارہ 163 ارب روپے تک جاپہنچا ہے جبکہ قرضہ جات اس کے علاوہ ہیں۔ حکومت نے اسٹیل مل کو فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کی تھی تاہم اسے مناسب خریدار کی تلاش میں مشکلات کا سامنا ہے اور ساتھ ہی صوبائی حکومت اور 14 ہزار ملازمین کی نمائندہ طاقتور یونین کی جانب سے بھی مزاحمت کی جارہی ہے۔
محمد زبیر کا کہنا ہے کہ حکومت کے پاس اب بھی اسٹیل مل کو فروخت کرنے کا آپشن موجود ہے تاہم زیادہ امکان یہ ہے کہ ادارے کو طویل مدتی لیز پر دے دیا جائے کیوں کہ چینی اور ایرانی کمپنیاں اس میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ انہوں نے برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کو بذریعہ ٹیلی فون بتایا کہ ’ہم ممکنہ طور پر 45 سالہ لیز کا معاہدہ کریں گے اور اس کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاروں اور مقامی کمپنیوں کی جانب دیکھ رہے ہیں‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ فروخت یا ممکنہ لیز کے معاہدے سے قبل نجکاری بورڈ اور کابینہ کمیٹی کی منظوری ضروری ہوگی۔ محمد زیبر نے کہا کہ نجکاری کمیشن لاہور اور کراچی میں آئندہ ہفتے روڈ شوز کا انعقاد کرے گی تاکہ پی ایس ایم میں مقامی سرمایہ کاروں کی دلچسپی بڑھائی جاسکے۔ پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے 2013 میں 6.7 ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکج لیتے ہوئے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ پاکستان اسٹیل ملز اور پی آئی اے کی نجکاری کرے گا۔
تاہم آئی ایم ایف کا مذکورہ پروگرام رواں برس ستمبر میں ختم ہوچکا لیکن حکومت ان دونوں اداروں کی نجکاری نہ کرسکی۔ پی آئی اے تو آپریشنل ہے لیکن اسٹیل ملز کئی دہائیوں سے سرمایہ کاری میں کمی کہ وجہ سے شدید بحران کا شکار ہوچکی ہے اور اب چین اور دیگر ملکوں کی اسٹیل کمپنیوں سے مقابلے کے قابل بنانے کے لیے اس میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرنی ہوں گی۔ محمد زبیر کا کہنا ہے کہ حکومت اسٹیل ملز کو طویل مدتی لیز پر دینے کی خواہاں ہے تاکہ اس سے حاصل ہونے والی رقم ادارے کی تجدید میں لگائی جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ ’ایک ایسی کمپنی جس کے واجبات بہت زیادہ ہوں اور اس کی حالت خراب ہو تو آپ کو اس میں بڑی ساختیاتی تبدیلیاں کرنی پڑتی ہیں، نیا پلانٹ اور نئے آلات لگانے پڑتے ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ ’30 سال یا اس سے کم عرصے کے لیز پر دینے کے بجائے 40 سالہ لیز پر دینا بہتر ہے‘.
واضح رہے کہ رواں برس کے آغاز میں وفاقی حکومت نے سندھ حکومت کو پیشکش کی تھی کہ وہ اسٹیل ملز کا انتظام سنبھال لے لیکن کئی ماہ کی مشاورت کے بعد سندھ حکومت نے انکار کردیا تھا. محمد زبیر کا کہنا ہے کہ اسی وجہ سے نجکاری کا عمل تاخیر کا شکار ہوا اور کمیشن کو نئے سرے سے کام شروع کرنا پڑا.