ایمزٹی وی(انٹرٹینمنٹ) شہنشاہ قوالی،غزل گائیک اور موسیقار استاد نصرت فتح علی خان کی انیسویں برسی آج منائی جارہی ہے۔
نصرت فتح علی خان تیرہ اکتوبر انیس اڑتالیس کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے، آپ کے والد کا نام فتح خان تھا وہ خود بھی نامور گلوکار اور قوال تھے۔ نصرت فتح علی خان بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ٹائم میگزین نے دوہزار چھ میں ایشین ہیروز کی فہرست میں ان کا نام بھی شامل کیا، بطور قوال اپنے کریئر کے آغاز میں اس فنکار کو کئی بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔
قوال کی حیثیت سے ایک سو پچیس آڈیو البم ان کا ایک ایسا ریکارڈ ہے، جسے توڑنے والا شاید دوردورتک کوئی نہیں، جن کی شہرت نے انہیں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ دلوائی، دم مست قلندر مست ، علی مولا علی ، یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، میرا پیاگھر آیا، اللہ ہو اللہ ہو اور کینا سوہنا تینوں رب نے بنایا، جیسے البم ان کے کریڈٹ پر ہیں، ان کے نام کے ساتھ کئی یادگار قوالیاں اور گیت بھی جڑے ہیں۔
نصرت فتح علی خان کی ایک حمد وہ ہی خدا ہے کو بھی بہت پذیرائی ملی جبکہ ایک ملی نغمے میری پہچان پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لئے گایا گیا گیت ‘جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم’ آج بھی لوگوں کے دلوں میں بسے ہیں۔
نصرت فتح علی خان کو ہندوستان میں بھی بے انتہا مقبولیت اور پذیرائی ملی، جہاں انہوں نے جاوید اختر، لتا مینگیشکر، آشا بھوسلے اور اے آر رحمان جیسے فنکاروں کے ساتھ کام کیا۔ یورپ میں ان کی شخصیت اور فن پر تحقیق کی گئی اور کئی کتابیں لکھی گئیں، 1992 ء میں جاپان میں شہنشاہ قوالی کے نام سے ایک کتاب شائع کی گئی۔
نصرت فتح علی خان نے دنیا بھر میں اپنی آواز کا جادو جگایا ۔پاکستان کیساتھ ساتھ کئی حکومتوں اور اقوام متحدہ نے انکی شاندار فنی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں متعدد سرکاری اعزازات سے نوازا۔
جگر و گردوں کے عارضہ سمیت مختلف امراض میں مبتلا ہونے کے باعث صرف 49سال کی عمر میں 16اگست 1997 کو شہنشاہ قوالی نصرت فتح علی خان اپنے کروڑوں مداحوں کو اکیلا چھوڑ گئے۔