ایمزٹی وی(انٹرٹینمنٹ) اپنی شاعری سے سحر طاری کردینے والے ساحر لدھیانوی کو اپنے مداحوں سے بچھڑے36 برس بیت گئے، لیکن ان کی شاعری اور درد بھرے گیت آج بھی لوگوں کے دلوں کو تڑپاتے ہیں۔
ان کا اصل نام عبدالحئی تھا اور وہ 8 مارچ 1921ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے ،ساحر لدھیانوی کے شعری مجموعوں میں تلخیاں، گاتا جائے بنجارہ اور آؤ کہ کوئی خواب بنیں کے نام شامل ہیں۔
انہوں نے متعدد فلموں کے لیے نغمات بھی لکھے تھے، جن میں نوجوان، بازی، جال، ٹیکسی ڈرائیور، دیوداس، گھر نمبر 44، منعم جی، انگارے، جورو کا بھائی، تاج محل،ریلوے پلیٹ فارم، میرین ڈرائیو، نیا دور، پیاسا، پھر صبح ہوگی اور کبھی کبھی کے نام خصوصاً قابل ذکر ہیں۔
ساحر نے اپنی شاعری اور نغمہ نگاری پربے شمار انعامات اور اعزازات حاصل کیے، جن میں لینن امن انعام، دو فلم فیئر ایوارڈز اور پدم شری کے خطابات سرفہرست ہیں۔
ساحر لدھیانوی نے جن نغمات پر فلم فیئر ایوارڈز حاصل کیے وہ فلم تاج محل کا نغمہ ’جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا‘ اور فلم کبھی کبھی کا نغمہ ’کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے‘، تھے۔
’چند کلیاں نشاط کی چن کر مدتوں محوِ یاس رہتا ہوں‘، ’تیراملنا خوشی کی بات سہی‘، ’تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں‘ جیسے شہرہ آفاق گیتوں کا تخلیق کار خود تو 25 اکتوبر 1980 کودنیاسے چلا گیالیکن اپنی پرچھائیاں چھوڑ گیا۔
ساحرلدھیانوی ہمیں جس صبح کی امید دلاتا رہا وہ صبح ابھی آئی تو نہیں لیکن آئے گی ضرور۔