ایمزٹی وی(انٹرٹینمنٹ) معروف موسیقار نثار بزمی کو دنیا سے رخصت ہوئے 11 برس بیت گئے لیکن ان کی تخلیق کی گئیں لازوال دھنیں آج بھی سننے والوں کے کانوں میں رس گھولتی ہیں۔
نثار بزمی 1924 میں بھارتی ریاست مہاراشٹرا کے علاقے خاندیش کے قصبے میں پیدا ہوئے، انہوں نے اپنے فنی سفر کا آغاز آل انڈیا ریڈیو سے کیا اور کچھ ہی عرصے بعد بمبئی میں فلموں کی موسیقی دیناشروع کردی۔ بمبئی میں ان کا ستارہ اس قدر عروج پر تھا کہ لکشمی کانت پیارے لال جیسے موسیقار اُن کی معاونت میں کام کر چُکے تھے لیکن پاکستان فلم انڈسٹری کے معمار فضل احمد فضلی کے بلاوے پر انہوں نے بھارت چھوڑ کر پاکستان میں سکونت اختیار کرلی۔
ان کی بطور موسیقار پاکستان میں پہلی فلم ’’ایسا بھی ہوتا ہے‘‘ تھی جس میں ان کے گیت’’محبت میں تیرے سر کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے‘‘ پر احمد رشدی اور میڈم نور جہاں نے اپنی مدھر آوازوں کے جادو جگائے۔ جس کے بعد انہوں نے ’صاعقہ‘، ’انجمن‘، ’میری زندگی ہے نغمہ‘، ’خاک اور خون‘ اور ’ہم ایک ہیں‘ جیسی فلموں کی موسیقی تخلیق کی۔
نثار بزمی کو ان کی فنی خدمات کے باعث پرائیڈ آف پرفارمنس سمیت کئی دیگر ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ عظیم موسیقار 22 مارچ 2007 کو اس دارفانی سے کوچ کر گئے لیکن ان کی تخلیق کردہ موسیقی آج بھی کروڑوں لوگوں کو مسحورکردیتی ہے۔