کراچی: خوشبوؤں، خوابوں اور محبتوں کو اپنی شاعری کے قالب میں ڈھالنے والی پروین شاکر کےمداح ان کی 67 ویں سالگرہ منارہے ہیں۔
24 نومبر 1954 کو کراچی میں پیدا ہونے والی پروین شاکرنے جس گھر میں آنکھ کھولی وہ صاحبان علم کا خانوادہ تھا۔ ان کے خاندان میں کئی نامور شعرا اور ادبا پیدا ہوئے جس کی وجہ سے وہ اپنے گھر میں ہی کئی شعراء کے کلام سے روشناس ہوئیں۔ جامعہ کراچی سے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ ہوگئیں تاہم بعد میں انہوں نے سرکاری ملازمت اختیار کرلی اور ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ انتہائی کم عمری میں ہی انہوں نے شعر گوئی شروع کردی تھی۔
انھیں شاعری کی پہلی کتاب ’’خوشبو‘‘ پرآدم جی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کے دیگر شعری مجموعے خود کلامی، صد برگ، انکار، ماہ تمام اور کف آئینہ کو بھی بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی۔ اردو لہجے کی منفرد شاعرہ ہونے کی وجہ سے پروین شاکر کو بہت ہی کم عرصے میں شہرت حاصل ہو گئی۔ پروین شاکر کے لیے ایک انوکھا اعزاز یہ بھی تھا کہ 1982 میں جب وہ سینٹرل سپیریئر سروسز کے امتحان میں بیٹھیں تو اردو کے امتحان میں ایک سوال ان کی شاعری سے ہی متعلق تھا۔
پروین شاکرکی پوری شاعری ان کے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار ہے تاہم یہ پوری ایک نسل کی نمائندگی کرتی ہے کیونکہ ان کی شاعری کا مرکزی نکتہ عورت ہے۔ ان کے کلام میں ایک نوجوان دوشیزہ کے شوخ و شنگ جذبات کا اظہارہے تو زندگی کی سختی کا اظہار بھی ملتا ہے۔
پروین شاکر کے اشعار میں لوک گیت کی سادگی جبکہ نظموں اورغزلوں میں بھولے پن اور نفاست کا دل آویزسنگم ہے۔ ان کی شاعری میں احساس کی جو شدت ہے وہ ان کی دیگر ہم عصر شاعرات کے یہاں نظر نہیں آتی۔ انہوں نے زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کو نہایت خوبصورتی سے لفظوں کے قالب میں ڈھالا ہے۔