ایمزٹی وی(ٹیکنالوجی)امریکا میں یونیورسٹی آف الینوئے کے ماہرین نے ایک ایسا شمسی سیل تیار کرلیا ہے جو ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرتا ہے اور سورج کی روشنی استعمال کرتے ہوئے اسے براہِ راست قابلِ استعمال ایندھن میں تبدیل کرتا ہے یعنی یہ شمسی سیل اُسی عمل کی نقالی کرتا ہے جو ایک پتے میں ہوتا ہے۔
اب تک تیار کیے جانے والے شمسی سیل سورج کی روشنی کو براہِ راست بجلی میں تبدیل کرتے ہیں جسے بیٹریوں میں محفوظ کرنا پڑتا ہے۔ توانائی کے شعبے سے وابستہ ماہرین پچھلے کئی سال سے پتوں کی نقل کرنے والے شمسی سیل تیار کرنے کی کوششوں میں مصروف تھے لیکن اس سے پہلے انہیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی تھی۔ نیا شمسی سیل ایک طرف سورج کی روشنی سے براہِ راست ایندھن (ہائیڈروکاربن) تیار کرکے بیٹریوں کی ضرورت ختم کرتا ہے تو دوسری جانب یہ ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرکے آلودگی کا مسئلہ بھی حل کرتا ہے۔ یونیورسٹی آف الینوئے شکاگو میں مکینیکل اینڈ انڈسٹریل انجینئرنگ کے ماہرین کے مطابق یہ کوئی فوٹو وولٹائک شمسی سیل نہیں بلکہ اسے ’’فوٹو سنتھینٹک سولر سیل‘‘ کہنا زیادہ درست ہوگا۔‘‘
پودوں کے پتے اپنا ایندھن گلوکوز کی شکل میں تیار کرتے ہیں لیکن یہ نیا شمسی سیل ’’سنگیس‘‘ (Syngas) یعنی ’’تالیفی گیس‘‘ کی شکل میں ایندھن تیار کرتا ہے جو ہائیڈروجن اور کاربن مونو آکسائیڈ کا مجموعہ ہوتی ہے۔ سنگیس کو براہِ راست جلایا جاسکتا ہے یا پھر ڈیزل یا کسی دوسرے ہائیڈروکاربن ایندھن میں تبدیل کرکے گاڑیوں وغیرہ میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
نئے شمسی سیل کو ممکن بنانے میں ایک طرح کے کیمیائی مرکب (کیٹالسٹ یا عمل انگیز) کا خصوصی کردار ہے۔ ریسرچ پیپر کے پہلے مصنف کا کہنا ہے کہ یہ مرکب ’’نوبل میٹل کیٹالسٹس کے مقابلے میں ایک ہزار گنا زیادہ تیز رفتار ہے جب کہ 20 گنا کم خرچ بھی ہے۔‘‘ ماہرین نے اس منفرد شمسی سیل کا پیٹنٹ حاصل کرنے کےلیے درخواست بھی دائر کردی ہے۔