جمعرات, 28 نومبر 2024


خودبخود تحلیل ہونے والی بیٹری تیار

ایمزٹی وی(ٹیکنالوجی) مشن امپوسبل سیریز کی ایک فلم میں دکھایا گیا ہے کہ ایک مخصوص عینک لگانے کے بعد مشن سے متعلق تفصیلات ہیرو کی نگاہوں کے سامنے ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ تمام معلومات ظاہر ہوجانے کے بعد ہیرو عینک اتار کر اچھال دیتا ہے، جو چشم زدن میں ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہے۔ اور یوں عینک میں چھپی معلومات بھی گویا ختم ہوجاتی ہیں۔

ازخود تحلیل ہوجانے والے آلات عسکری رازوں کو دشمن کے ہاتھوں میں جانے سے روکنے میں بے حد معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ اس نوع کے آلات کی تیاری پر تحقیق کے لیے طبیعیات کی باقاعدہ شاخ وجود میں آچکی ہے جسے Transient electronics کا نام دیا گیا ہے۔ ازخود تحلیل ہونے کی صلاحیت کے حامل آلات کی تیاری کے ضمن میں حال ہی میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ یہ پیش رفت ایک بیٹری کی صورت میں ہے جسے پانی میں ڈال دیا جائے تو یہ نصف گھنٹے میں ’غائب‘ ہوجاتی ہے۔

امریکا کی آیووا اسٹیٹ یونیورسٹی میں مکینیکل انجنیئرنگ کے اسسٹنٹ پروفیسر رضا منتظمی اپنی ٹیم کے اراکین کے ساتھ برسوں سے ازخود تحلیل ہوجانے والے آلات کی ٹیکنالوجی پر تحقیق کررہے ہیں۔ یہ بیٹری انھی کی ایجاد ہے۔ یونیورسٹی کے ساتھ ساتھ وہ حکومت کے زیرِ نگرانی ایمز لیبارٹری سے وابستہ ہیں۔ بیٹری اسی تجربہ گاہ میں بنائی گئی ہے۔ لیتھیم آیون بیٹری ڈھائی وولٹ کا کرنٹ دیتی ہے اور پانی میں ڈالنے پر تیس منٹ میں تحلیل ہوجاتی ہے۔

بیٹری ایک عام کیلکولیٹر کو پندرہ منٹ تک برقی توانائی فراہم کرسکتی ہے۔ رضا منتظمی کے مطابق یہ ازخود تحلیل ہوجانے والی اولین بیٹری ہے جسے باقاعدہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ رضا منتظمی کی ایجاد قابل تحلیل پولیمر کی آٹھ تہوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ایک تہ اینوڈ، ایک کیتھوڈ اور الیکٹرولائٹ سیپریٹر کے طور پر عمل کرتی ہیں۔ ان کے اوپر پولی وینائل الکوحل سے تیار کردہ پولیمر کی مزید دو تہیں چڑھائی گئی ہیں۔ بیٹری انتہائی مختصر ہے۔

اس کی موٹائی ایک ملی میٹر، لمبائی پانچ ملی میٹر اور چوڑائی چھے ملی میٹر ہے۔ جب اسے پانی میں ڈالا جاتا ہے تو پولیمر کا خول پھولنے لگتا ہے، کیتھوڈ اور اینوڈ ٹوٹ جاتے ہیں اور آدھے گھنٹے کے اندر اندر بیٹری تحلیل ہوجاتی ہے۔ اب رضا منتظمی اور ان کے ساتھیوں کی توجہ بیٹری کی طاقت بڑھانے پر ہے، تاکہ اسے بڑے آلات میں بھی استعمال کیا جاسکے۔ تاہم یہ بیٹری اب بھی اس قابل ہے کہ اسے چھوٹے آلات میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment