ایمزٹی وی(ٹیکنالوجی) پرسنل کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، اسمارٹ فون وغیرہ کی ہیکنگ عام سی بات ہے، مگر آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ہیکرز آپ کے دماغ میں بھی نقب لگاسکتے ہیں۔ سائنس داں ان خدشات کا اظہار کررہے ہیں کہ ممکنہ طور پر متعدد انسانوں کے دماغ ’ہیک‘ ہو بھی چکے ہیں۔
دماغ کی ہیکنگ بہ ظاہر سائنس فکشن فلموں کی بات معلوم ہوتی ہے، مگر محققین کہتے ہیں کہ اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ ہمارے اعصابی اشارات (neural signals) پڑھے جارہے ہیں اور ان کے ذریعے ہماری عادات و اطوار اور خیالات تک رسائی حاصل کی جارہی ہے۔ محققین نے دنیا بھر کی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ ہیکرز کو ہمارے دماغوں میں نقب لگانے سے روکنے کے لیے پراؤیسی اور سیکیوریٹی فریم ورک تشکیل دیا جائے۔
واشنگٹن یونیورسٹی کے محققین نے ایک تحقیق میں اس راز سے پردہ اٹھایا ہے کہ ہمارے دماغوں میں کیسے نقب لگائی جارہی ہے۔ تحقیق کے مطابق اس مقصد کے لیے برین کمپیوٹر انٹرفیس ( بی سی آئی) سے مدد لی جارہی ہے۔ برین کمپیوٹر انٹرفیس وہ طریقے ہیں جن کے ذریعے دماغ براہ راست کمپیوٹر سے رابطے میں آجاتا ہے۔
آپ نے محض سوچ کے ذریعے کھیلے جانے والے ویڈیو گیمز کے بارے میں ضرور پڑھا ہوگا۔ یہ گیمز سَر پر مخصوص کنٹوپ پہن کر کھیلے جاتے ہیں جو سوچ کی لہروں کو محسوس اور ڈی کوڈ کرتے ہوئے ان کے مطابق اسکرین پر ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ یہ مخصوص کنٹوپ برین کمپیوٹر انٹرفیس کی ایک شکل ہے۔ ویڈیو گیمنگ کے علاوہ برین کمپیوٹر انٹرفیسز کا استعمال طب، تشہیرکاری، انٹرٹینمنٹ اور کئی دوسری صنعتوں میں بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے۔
اگرچہ یہ ٹیکنالوجی انسانی زندگی کو سہل بنانے کے لیے وضع کی گئی تھی، مگر غلط ہاتھوں میں اس کی رسائی انسانی زندگیوں پر منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ بی سی آئی کے ذریعے حاصل کی گئی دماغ کی تصاویر کو مخصوص ایپلی کیشنز میں ڈال کر دماغ کے خود اختیاری ردعمل کی نشان دہی کی جاسکتی ہے اور اس سے اس انسان کی عادات و اطوار کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر بی سی آئی کو سیڑھی بناتے ہوئے انسانی دماغ میں نقب لگائی جاسکتی ہے۔
واشنگٹن یونیورسٹی کے الیکٹریکل انجنیئر ہوورڈ چیزک اور ان کی ساتھی تمارا بوناکی، بی سی آئیز کے ذریعے ہیکنگ کے طریقوں پر کئی برس سے تحقیق کررہے ہیں۔ اس تحقیق میں وہ پیغامات بھی شامل ہیں جو ویڈیو گیمز میں صارف کی ذاتی معلومات حاصل کرنے کے لیے داخل کیے جاتے ہیں۔ زیادہ تر انھی کے ذریعے ہیکرز صارف کے دماغ تک پہنچتے ہیں۔
مثال کے طور پر ویڈیوگیمز کھیلتے ہوئے یوزر کے سامنے اسکرین پر کسی جانے پہچانے برانڈ کا لوگو اچانک نمودار ہوجاتا ہے جو چند ہی لمحے قبل غائب ہوا تھا۔ اگر ایسا ہو تو یہ یوزر کی نظر کا دھوکا نہیں ہوتا بلکہ ہیکرز کی کارستانی ہے جو برین کمپیوٹر انٹرفیس کی مدد سے لوگو جیسے پیغامات پر یوزر کے دماغ کا غیرارادی ردعمل ریکارڈ کرتے ہیں۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ محض دماغ کے خوداختیاری ردعمل کو ریکارڈ کرنے سے کیا ہوگا، کوئی کرتا ہے تو کرتا رہے۔ دراصل بات اتنی سیدھی سادی نہیں ہے۔ اس ’ ریکارڈنگ‘ کے ذریعے ہیکر آپ کے پسندیدہ برانڈز کے علاوہ آپ کی سیاسی وابستگی سے لے کر مذہبی عقائد تک بہت کچھ جان سکتے ہیں، اور پھر ان معلومات کو آپ کے خلاف بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ شاید عام لوگوں کے لیے یہ بہت بڑا مسئلہ نہ ہو، مگر دنیا بھر کی مشہور اور معروف شخصیات کے علاوہ کسی بھی ملک کے حکومتی عہدے دار اور حساس اداروںکے سربراہوں کے لیے معلومات کی یہ چوری زیادہ نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے۔
تمارا بوناکی، ہیکنگ کے اس انوکھے طریقے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ برین کمپیوٹر انٹرفیسز سے جُڑی مشکل یہ ہے کہ دماغ کو کمپیوٹر سے جوڑنے والی بیش تر ڈیوائسز برقی اشارات کے ذریعے ایپلی کیشن یعنی ویڈیو گیمز وغیرہ کو کنٹرول کرتے ہوئے بقدر ضرورت نہیں بلکہ تمام EEG سگنلز تک رسائی حاصل کرلیتی ہیں جو دماغ میں جاری برقی سرگرمی کو ظاہر کرتے ہیں۔ EEG سگنلز میں ہماری ذاتی معلومات چھپی ہوتی ہیں، جنھیں ہیکرز مخصوص ایپس کی مدد سے ڈی کوڈ کرلیتے ہیں۔
محققین کا کہنا ہے انسانی دماغ کی ہیکنگ بہت جلد ایک سنگین مسئلے کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ لہٰذا جتنی جلد ممکن ہو اس پر قابو پانے کے لیے پراؤیسی اور سیکیورٹی فریم ورک تشکیل دیا جانا چاہیے۔