پیر, 25 نومبر 2024


خبردار! قربانی قریب ہے بار بی کیو سے پرہیز کریں


ایمزٹی وی(صحت)نیویارک یونیورسٹی میں کیے گئے ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ آگ پر بھون کر، تل کر یا تندور میں پکا کر تیار کرنے کی وجہ سے کھانوں میں ’’ایڈوانسڈ گلائی سیشن اینڈ پروڈکٹس‘‘ یا ’’ایجز‘‘ (AGEs) کہلانے والے مادّوں کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ ایجز وہ مادّے ہیں جو انسولین کے کام میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ کھانے میں ان کی اضافی مقدار کا ایک مطلب ذیابیطس قسم دوم (ٹائپ ٹو ڈائبٹیز) کا بڑھا ہوا خطرہ بھی ہے کیونکہ انسولین ہی وہ پروٹین ہے جو ہمارے خون میں شکر کی مقدار کو قابو میں رکھتی ہے۔
نیویارک یونیورسٹی کے مذکورہ مطالعے میں 50 سال یا اس سے زیادہ عمر کے ایسے رضاکار شریک کیے گئے تھے جو ذیابیطس کے مریض تو نہیں تھے لیکن زائد وزنی سمیت، ان میں کم از کم 2 علامات ایسی ضرور تھیں جن کے باعث خدشہ تھا کہ وہ آئندہ چند سال میں ذیابیطس کا شکار ہوسکتے ہیں۔

یہ مطالعہ ایک سال تک جاری رہا جس کے دوران یہ دیکھا گیا کہ وہ لوگ جنہوں نے پانی میں ابلے ہوئے یا بھاپ میں پکائے گئے کھانوں کا زیادہ استعمال کیا تھا، ان کے جسموں میں ایجز کی مقدار بھی کم گئی تھی جس کے نتیجےمیں نہ صرف ان کا وزن کم ہوا تھا بلکہ ان میں ذیابیطس کی دیگر علامات بھی کم تر سطح پر رہ گئی تھیں۔

ان کے برعکس وہ لوگ جنہیں کھانے کے معاملے میں احتیاط کی خصوصی ہدایات نہیں دی گئی تھیں اور جنہوں نے بار بی کیو، تلے ہوئی غذائیں اور بیک فوڈ کا زیادہ استعمال جاری رکھا تھا، ان میں ذیابیطس کی علامات بھی (مطالعہ شروع ہونے سے پہلے کے مقابلے میں) زیادہ شدت اختیار کرگئیں، خاص کر ان کے جسموں میں انسولین کی کارکردگی متاثر ہوئی۔
اس مطالعے کے بعد ماہرین کا کہنا ہے کہ مغربی طرزِ حیات میں جس طرح کی غذاؤں کا استعمال زیادہ کیا جارہا ہے وہ دوسری کئی بیماریوں کے ساتھ ساتھ ذیابیطس کا خطرہ بھی بڑھاتی ہیں۔ یعنی بہتر ہے کہ ہم زندگی گزارنے کا اپناڈھنگ تبدیل کریں ورنہ جلد ہی ذیابیطس کو بھی اپنا منتظر پائیں گے۔

یاد رہے کہ ذیابیطس قسم دوم وہ ذیابیطس ہے جو پیدائشی نہیں ہوتی بلکہ بڑی عمر کے دوران جسم میں انسولین کی مقدار کم ہونے یا انسولین کے درست طور پر کام نہ کرنے کی وجہ سے لاحق ہوسکتی ہے۔ ماضی میں یہ بیماری صرف 50 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد ہی میں زیادہ ہوتی تھی لیکن حالیہ برسوں کے دوران اس سے کم عمر والے افراد بھی متاثر ہونے لگے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج اس بیماری کو صحت کا ’’بین الاقوامی ٹائم بم‘‘ بھی کہا جانے لگا ہے۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment