ایمز ٹی وی(مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستانی شہروں میں رہنے والی ملک کی 40 فیصد آبادی کو گرد کے ذرات اور حیاتیاتی نظام میں موجود پارے کا سامنا ہے جب کہ زیریں سندھ کے میدانوں میں پارے کی سب سے ذیادہ مقدار دیکھی گئی ہے۔ سائنس آف دی ٹوٹل اینوائرمنٹ میں شائع ایک رپورٹ میں پاکستانی ماہرین نے ملک کے پانچ خطوں یعنی سوات وادی و گلگت بلتستان، کشمیر، زیریں ہمالیہ اور سندھ کے میدانوں میں تقسیم کرتے ہوئے 22 اہم علاقوں سے انسانی بالوں کے نمونے لے کر ان کا تجزیہ کیا ہے۔ پاکستان میں اپنی نوعیت کے اس پہلے مطالعے کے بعد جو حقائق سامنے آئے ہیں اس سے میں سرِفہرست زیریں سندھ کے میدان ہیں جہاں زرعی اور صنعتی علاقوں میں پارے کی مقدار سب سے زیادہ ہے۔ دوسری جانب اس سروے کے مرکزی اسکالر اور کامسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی سے وابستہ سید علی مستجاب اکبر شاہ ایقانی نے بتایا کہ ’ ڈیٹا سے ظاہر ہوا ہے کہ لاہور کے صنعتی علاقوں میں پارے کی آلودگی سب سے زیادہ ہے یعنی 3000 حصے فی ارب اور حیاتیاتی ارتکاز ( بایو اکیوملیشن) 2480 حصے فی ارب ہے۔ ‘انہوں نے بتایا کہ ماحول میں پارے کے ارتکاز کو نوٹ کرنے کے لیے انسانی بال نہایت اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ اس کی جڑوں میں پارہ جمع ہوتا رہتا ہے۔ انسانی پیشاب اور خون کے مقابلے میں بالوں کو دیکھنا آسان اور کم خرچ ہوتا ہے۔ سروے رپورٹ کے دوران انکشاف ہوا ہے کہ اسپتالوں اور صنعتوں سے نکلنے والا فضلہ پارے کی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ ہے، رپورٹ پر اپنے خیالات بیان کرتے ہوئے سسٹین ایبل ڈولپمنٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ ( ایس ڈی پی آئی) کے سینیئر مشیر محمود خواجہ نے کہا کہ پاکستان میں مرکری یعنی پارے کی آلودگی کے سروے میں کئی سقم تھے اور ان کی معلومات نہ ہونے سے پالیسی سازی میں رکاوٹ آتی رہی ہے۔ تاہم یہ نئی بیس لائن اسٹڈی اس خلا کو پر کرے گی اور حکومت پارے کے زہریلے اثرات پر کوئی قابلِ عمل پالیسی مرتب کرسکے گی۔ دیگر ماہرین نے اس ضمن میں مزید تحقیق اور فوری اقدامات پر زور دیا ہے۔ واضح رہے کہ پارہ شدید زہریلے خواص رکھتا ہے اور بچے کی پیدائش میں نقائص، گردے فیل ہونے، جسم میں کپکپاہٹ اور رسولیوں کی وجہ بنتا ہے۔