ایمزٹی وی (مانیٹرنگ ڈیسک)کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی دنیا میں ’’مصنوعی ذہانت‘‘ (آرٹی فیشل انٹیلی جنس) کا استعمال کوئی نئی بات نہیں اور سرچ انجنز سے لے کر سوشل میڈیا ویب سائٹس تک کسی نہ کسی حد تک اس کا استعمال کررہے ہیں جس کے تحت کسی بھی صارف کی جانب سے بار بار استعمال کئے گئے الفاظ (کی ورڈز) کو مدنظر رکھتے ہوئے خودکار طور پر سرچ اور مطابقت رکھنے والی پوسٹیں دکھائی جاتی ہیں۔
اسی طرح اب تک انٹرنیٹ پر تصاویر/ گرافکس پہچاننے والے الگورتھمز اور ان پر مشتمل سافٹ ویئر بھی اتنے جدید ہوچکے ہیں کہ وہ کسی تصویر کے ساتھ دیئے گئے مخصوص الفاظ یعنی کی ورڈز کے علاوہ تصویر میں دکھائی جانے والی جزئیات تک کی مدد سے اس بارے میں بہت کچھ بتاسکتے ہیں۔
مارک زکربرگ کا منصوبہ ان ہی الگورتھمز کو جدید تر کرتے ہوئے اس قابل بنانا ہے کہ وہ ہر ایک منٹ میں کروڑوں کے حساب سے کی جانے والی فیس بُک پوسٹوں کا متن کھنگال کر ان میں ایسے الفاظ کی نشاندہی کرسکیں جو شدت پسندی اور دہشت گردی کے علمبردار ہوں۔ مزید یہ کہ ان الگورتھمز کو اس قابل بھی بنانا ضروری ہوگا کہ وہ تصویر کی شکل میں تحریری پوسٹوں میں دی گئی عبارت کو پہچان سکیں یعنی ان میں ’’او سی آر‘‘ کی صلاحیت بھی آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہو۔ علاوہ ازیں انہیں صرف تصاویر کے ظاہری خد و خال دیکھ کر یہ بھی جاننے کے قابل ہونا چاہئے کہ کہیں ان میں شدت پسندی یا دہشت گردی سے تعلق رکھنے والا کوئی منظر تو موجود نہیں۔
اگرچہ یہ صلاحیتیں پہلے ہی مصنوعی ذہانت سے لیس الگورتھمز اور متعلقہ سافٹ ویئر میں موجود ہیں لیکن سب سے بڑا چیلنج انہیں بہت زیادہ ڈیٹا (بگ ڈیٹا) کو بہت ہی کم وقت میں کھنگالنے اور درست نتائج دینے کے قابل بنانا ہے۔ زکربرگ کے بقول، سوشل میڈیا پر روزانہ اربوں تعداد میں پوسٹیں، تصویریں اور تبصرے شیئر کرائے جاتے ہیں جنہیں فی الفور کھنگالنے کےلیے فیس بُک کے موجودہ سافٹ ویئر اور الگورتھمز یکسر ناکافی ہیں۔ انہیں اتنے بڑے پیمانے کے ڈیٹا کو کھنگالنے کم سے کم وقت میں درست نتائج دینے کے قابل بنانے میں 5 سال کی محنت درکار ہوگی۔
زکربرگ کا کہنا تھا کہ ان کے ادارے فیس بُک میں ان سافٹ ویئر کے الگورتھمز بہتر بنانے کے منصوبے پر کام شروع کیا جاچکا ہے اور انہیں یقین ہے کہ مذکورہ تمام اہداف کو حاصل کرتے ہوئے یہ منصوبہ آئندہ پانچ سال کے اندر اندر مکمل کرلیا جائے گا۔
مستقبل کے اس الگورتھم/ سافٹ ویئر کی مدد سے آن لائن موجود معصوم اور مجرمانہ رجحانات رکھنے والے افراد میں تیزی سے فرق کیا جاسکے گا جس سے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی بہت مدد ملے گی۔
واضح رہے کہ بھیجی اور وصول کی گئی ای میلز کو کھنگال کر مشکوک متن شناخت کرنے والے الگورتھمز پہلے ہی امریکی ایف بی آئی اور سی آئی اے وغیرہ جیسے اداروں کے استعمال میں ہیں لیکن سوشل میڈیا پر سرگرمیاں بڑھنے کے ساتھ ساتھ انہیں ایک نئی جہت میں ترقی دینے کی ضرورت ہے۔