مانیٹرنگ ڈیسک: چاند کے قطبِ جنوبی (بائیں) اور قطبِ شمالی میں برف (نیلا رنگ) کے آثار سائنس دانوں نے کہا ہے کہ انھیں چاند پر برف کے حتمی شواہد مل گئے ہیں۔ یہ برف جنوبی اور شمالی دونوں قطبوں پر موجود ہے اور اندازہ ہے کہ بےحد قدیم ہے۔ یہ شواہد انڈیا کے خلائی جہاز چندریان 1 پر موجود آلات کی مدد سے اکٹھے کیے گئے جس نے 2008 اور 2009 کے درمیان چاند پر تحقیق کی تھی۔ اس تحقیق کی تفصیلات سائنسی جریدے پی این اے ایس میں شائع ہوئی ہیں۔ اس کے مطابق چاند کے جنوبی قطب پر موجود برف زیادہ تر گڑھوں کے اندر ہے، جب کہ قطبِ شمالی پر یہ برف خاصی چھدری اور بڑے رقبے میں بکھری ہوئی ہے۔ چندریان پر موجود ایم 3 نامی آلہ کا بنیادی مقصد چاند پر معدنیات کا جائزہ لینا تھا۔ اس سے حاصل ہونے والے اعداد و شمار سے پتہ چلا کہ چاند کی سطح پر برف موجود ہے۔ ایم 3 نے نہ صرف برف سے منعکس ہونے والی روشنی ناپی بلکہ اس نے براہِ راست برف کے مالیکیولز کی جانب سے انفرا ریڈ روشنی کے انجذاب کی بھی پیمائش کی۔
اس کا مطلب ہے کہ یہ آلہ جمے ہوئے پانی (برف) اور مائع پانی میں بھی فرق کر سکتا تھا۔ چاند کی سطح پر درج? حرارت دن کے وقت 100 ڈگری سیلسیئس تک پہنچ جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اتنی گرمی میں برف کا رہنا محال ہے۔ لیکن چونکہ چاند اپنے محور پر 1.54 درجے تک جھکا ہوا ہے، اس لیے وہاں ایسی جگہیں موجود ہیں جہاں کبھی بھی دھوپ نہیں پڑتی۔ سائنس دانوں نے حساب لگایا کہ چاند کے گڑھوں کے اندر، جہاں ہر وقت سایہ رہتا ہے، درجہ حرارت منفی 157 ڈگری سے اوپر نہیں جاتا۔ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں طویل عرصے تک برف ٹھوس حالت میں رہ سکتی ہے۔ اس سے قبل بھی چاند کے جنوبی قطب پر برف کی موجودگی کی اطلاعات آئی تھیں، لیکن بعض سائنس دانوں کا خیال تھا کہ ہو سکتا ہے یہ برف نہ ہو بلکہ چاند کی سفید مٹی ہو جس سے روشنی منعکس ہو رہی ہو۔ چاند پر پانی کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں انسان اسے استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ برف نہ صرف پینے کے قابل پانی میں تبدیل کی جا سکتی ہے بلکہ اس سے ہائیڈروجن حاصل کر کے راکٹ کا ایندھن بھی بنایا جا سکتا ہے۔ حالیہ برسوں میں نظامِ شمسی کے دوسرے اجرام میں بھی برف کے آثار پائے گئے ہیں جن میں سیارہ عطارد اور بونا سیارہ سیریز شامل ہیں۔