ایریزونا: نورو وائرس شید قے اور دست کی وجہ بنتے ہیں اور پوری دنیا کے پانیوں میں یہ پایا جاتا ہے۔ اب ایک چھوٹی خردبین (مائیکرواسکوپ) اور ایک ایپ کی بدولت اسے پانی میں بہت آسانی سے شناخت کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح نہ صرف بیماری سے بچاجاسکتا ہے بلکہ اس کی وبا کو پھیلنے سے بھی روکا جاسکتا ہے۔
نورو وائرس کئی ممالک میں گیسٹروانٹرائٹس کی عام وجہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ پانی میں اس کی موجودگی صحتمند افراد کو بہت تیزی سے بیمار کرتی ہے۔
اب یونیورسٹی آف ایریزونا کے پروفیسر جیونگ ییول یون اور ان کے ساتھیوں نے ایک اسمارٹ سسٹم بنایا ہے جس کی بدولت ایک اسمارٹ فون ایپ اور مائیکرواسکوپ کی بدولت پانی میں نورووائرس کے آثار معلوم کئے جاسکتے ہیں۔ یہ پورا نظام اتنا حساس ہے کہ فی ملی لیٹر 10 ایٹوگرام نورووائرس کی باآسانی شناخت کرسکتا ہے۔ یعنی پانی میں وائرس کی معمولی مقدار بھی بھانپ سکتا ہے۔ اس طرح روایتی طریقوں سے چھ گنا مؤثر اور بہتر ہے۔ لیکن سائنسدانوں کی یہ بات یاد رکھیں کہ اگر انسانی جسم میں دس کے قریب نورو وائرس چلے جائیں تو وہ اسے بیمار کرنے کے لیے کافی ہے۔
اس بیماری کو موسمِ سرما کی قے کا مرض بھی کہا جاتا ہے۔ کسی بحری جہاز، گنجان علاقوں اور دیگر مقامات پراس کی وبا سب سے تیزی سے پھیلتی ہے۔
نورووائرس کی شناخت کے لیے تحقیقی ٹیم نے ایک کاغذی چپ بنائی ہے ججس میں پولی اسٹائرین کے ایسے چھوٹے موتی رکھے گئے جو خاص روشنی خارج کرتے ہیں۔ ان موتیوں کی سطح پر نورو وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز ڈالی گئی تھیں۔ جیسے ہی نورو وائرس یا اس کے ذرات اس پر پڑتے ہیں تو وہ اس سے چپک جاتے ہیں۔
یہ ٹیسٹ حمل کا پتا لگانے والے ٹیسٹ جیسا ہی ہے جس میں اینٹی باڈیز ایک ہارمون ایچ سی جی کی موجودگی میں حاملہ ہونے کا پتا دیتی ہیں۔
اس کے بعد اسمارٹ فون کی خردبین سے روشنی خارج کرتے ہوئے موتیوں کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد ایپ کا کام شروع ہوتا ہے اور وہ تصویر کے پکسل کو دیکھتے ہوئے نورو وائرس کے ذرات کی تعداد کا اندازہ لگاتی ہے۔ اس ایجاد کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ پانی کے نمونے کو عین اسی مقام پر دیکھا جاسکتا ہے اور اسے تجربہ گاہ میں لانے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ ماہرین نے ایریزونا کے پانیوں میں اسے کامیابی سے آزمایا ہے۔