کراچی: جامعہ کراچی کے انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے فیکلٹی ممبر انجینئر ابصاراحمد خان نے شہابِ ثاقب کے نظارے کو 13 اور14 دسمبرکی رات کو اپنے کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا۔
ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال نے کہا کہ شہاب ثاقب دراصل سیارچوں یا دم دار ستاروں سے خارج ہونے والے ٹھوس پتھر ہوتے ہیں۔یہ موقع ہر سال 06 تا14 دسمبر تک رونماہوتاہے اور دنیا میں ہرجگہ دیکھا جاسکتا ہے،مگر ان جگہوں پر زیادہ پرکشش اور واضح ہوتاہے جہاں پر روشنی کی آلودگی کم ہو
اتفاق سے یہ موقع اس سال ایسے وقت پرآیا ہے کہ جب نئے چاند کی آمد ہونے والی ہے اور اس کی وجہ سے اس کی منظر کشی اس سال زیادہ بہتر رہی ہے۔ان کے نظر آنے کا دورانیہ انتہائی کم ہوتاہے کیونکہ 20 سے 25 میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر طے کرتے ہیں۔
اس برق رفتاری کی وجہ سے یہ زمین پر کشش ثقل میں آنے کے بعد زیادہ دیر نہیں ٹہرتے اور ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں جل کر راکھ ہوجاتے ہیں۔
ان کو دم دار ستارہ بھی کہا جاتاہے جس کو کیمرے کی آنکھ میں بند کرنا بہت مشکل ہوتاہے،لیکن آسمان صاف ہونے سے ان ٹکڑوں کوٹوٹتے ہوئے ستاروں کی طرح باآسانی دیکھاجاسکتاہے۔