ایمز ٹی وی(سرینگر) مقبوضہ کشمیر میں کشیدگی 118 ویں روز میں داخل ہوگئی۔ بھارتی مظالم کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر بھارتی فورسز کا بیہمانہ تشدد جاری ہے
جس سے 100 سے زائد مظاہرین زخمی ہوگئے ہیں۔ حریت کانفرنس نے احتجاج میں 10 نومبر تک توسیع کردی۔
کشمیریوں پر مسلط بھارتی جارحیت کو 118 روز ہوگئے۔ مقبوضہ وادی کو بھارتی فورسز کی بھاری نفری نے جیل میں تبدیل کردیا۔ کشمیریوں سے معمول کی زندگی گزارنے کا حق چھین لیا گیا۔
مقبوضہ وادی میں غیر اعلانیہ کرفیو کے باعث تعلیمی ادارے بند، ٹرانسپورٹ معطل اور کاروباری مراکز پر تالے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں نامعلوم افراد کی جانب سے اسکولوں کو نذر آتش کرنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
بھارتی فورسز کی جانب سے گھر گھر تلاشی اور نہتے کشمیریوں کی گرفتاری کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارتی فورسز کے بہیمانہ تشدد سے 10 سے زائد مزید مظاہرین زخمی ہوگئے۔
دوسری جانب حریت کانفرنس نے بھارتی مظالم کے خلاف احتجاج میں 10 نومبر تک توسیع کردی ہے۔ اس دوران مقبوضہ وادی کے مختلف علاقوں میں احتجاجی ریلیاں نکالی جائیں گی۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ڈاکٹر ملیحہ لودھی کہہ چکی ہیں کہ کشمیر میں نسلی و مذہبی بھارتی امتیازی سلوک کو مسترد کرتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں لاکھوں افراد کا حق خودارادیت سے محروم ہونا اکیسویں صدی کا المیہ ہے۔
اس سے قبل اسیر حریت لیڈر یاسین ملک نے رہائی کے بعد میڈیا سے گفتگو کی تھی جس میں ان کا کہنا تھا کہ دہلی کو پاکستان کا شکر گزار ہونا چاہیئے کہ وہ کشمیر کی تحریک کی اسلحے سے مدد نہیں کرتا، بصورت دیگر بھارت کو کم از کم 20 ہزار مسلح حریت پسندوں کا سامنا کرنا پڑتا جو اس کے لیے ناممکن ہے۔
ان کا کہنا تھا، ’گزشتہ ایک سال میں لگ بھگ 100 کے قریب جوانوں نے بھارتی فورسز سے اسلحہ چھینا اور مسلح جدو جہد کا راستہ اپنایا ہے جس کے لیے دہلی پاکستان کو مورد الزام ٹہراتا ہے‘۔
یاسین ملک حالیہ کشیدگی کے بعد کئی روز بھارتی فوج کی قید میں رہے اور دوران علاج غلط انجکشن لگنے پر ان کی طبعیت ناساز ہوگئی تھی جس کے بعد بھارتی حکومت نے گزشتہ ہفتے انہیں چشمہ شاہی سب جیل سے رہا کیا تھا