جمعہ, 26 اپریل 2024


لیکن وہاں کوئی بندوق نہ تھی _ انسانیت کی ناکامی کی دلیل'

ایمز ٹی وی (اسائنمنٹ ڈیسک) عثمان کا کہنا ہے کہ ’میں ایک ٹیلی فوٹو لینس استعمال کر رہا تھا اور وہ سمجھی کہ یہ کوئی ہتھیار ہے۔‘

انٹرنیٹ پر یہ تصویر شائع کرنے والے افراد کو بظاہر بندوق کی نال میں جھانکتی اس بچی کی آنکھ میں خوف کے سائے دکھائی دیے۔
ان کے مطابق ’عموماً بچے کیمرے کو دیکھ کر یا تو بھاگ جاتے ہیں یا چہرہ چھپا لیتے ہیں یا پھر مسکرا دیتے ہیں اور مجھے بچی کے خوفزدہ ہونے کا احساس تصویر کھینچنے کے بعد اسے دیکھنے پر ہوا۔ وہ اپنا ہونٹ کاٹ رہی تھی اور اس نے ہاتھ بھی بلند کیے ہوئے تھے۔‘
عثمان نے کہا کہ ان پناہ گزین کیمپوں میں بچے صحیح صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ ’یہ بچے ہی ہوتے ہیں جو معصومیت میں حقیقت بیان کر دیتے ہیں۔‘
حدیہ کا تعلق شامی شہر حما سے تھا اور وہ اپنی والدہ اور دو بہن بھائیوں کے ساتھ 150 کلومیٹر کا سفر کر کے اس کیمپ میں پہنچی تھیں جو ترک سرحد سے دس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment