عراق میں تعینات پاکستانی سفارتخانہ کے کمیونٹی اتاشی نے ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن کو خط ارسال کیا ہے جس میں سی اے اے کو متنبہ کیا گیا ہے پاکستان سے عراق نسوار کی آمد روکی جائے۔
پاکستانی سفارتخانے کی جانب سے ڈی جی سی اے اے کو لکھے گئے خط کی کاپی موصول ہوگئی ہے اور خط کا متن ہے کہ پاکستان کے تمام ایئرپورٹس سے عراق آنے والے مسافروں کو نسوارکے استعمال کی روک تھام کی جائے بصورت دیگر انہیں عراق پہنچنے پر حراست میں لے لیا جائے گا۔
ایئر پورٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ نسوار کے خلاف سول ایوی ایشن اتھارٹی کی جانب سے آگاہی مہم بھی شروع کردی گئی ہے جس میں مسافروں کو بتایا جارہا ہے کہ عراق پہنچنے پر نسوار برآمد ہونے کی صورت میں انہیں گرفتاری کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
یاد رہے کہ عراق سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق وہاں کی مقامی انتظامیہ نے کئی پاکستانیوں کو نسوار رکھنے کے جرم میں گرفتار بھی کیا ہے اور ان کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی گئی ہے۔
نسوار زمین میں اگنے والی تمباکو کی پتیوں سے بنی مصنوعات ہے یہ بغیر دھویں والے تمباکو کی ایک مثال ہے۔ نسوار کا ااستعمال ابتدائی طور پر امریکہ سے شروع ہوا اور یورپ میں 17 ویں صدی سے عام استعمال ہوا۔ یورپی ممالک میں سگریٹ نوشی پر پابندی کے باعث حالیہ برسوں میں اضافہ ہوا ہے۔
عام طور پر اس کا استعمال ناک، سانس یا انگلی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا میں اس کی شروعات ہونٹ کے نیچے رکھ کر استعمال کرنے سے ہوئی۔ ہیٹی کے مقامی لوگوں سے 1496ء-1493ء میں کولمبس کے امریکہ دریافت کے سفر کے دوران رامون پین نامی راہب نے اسے سیکھا اور عام کیا ۔
نسوار کا استعمال ہمارے خطے میں زیادہ تر افغانستان، پاکستان، بھارت، ایران،تاجکستان، ترکمانستان اور کرغزستان میں ہوتا ہے، پاکستان میں عموماً اسے پشتون ثقافت کا حصہ سمجھا جاتا ہے تاہم ایسا نہیں ہے بلکہ ملک کے دیگر حصوں میں رہنے والے بھی نسوار کثیر تعداد میں استعمال کرتے ہیں اور یہاں اسے نشہ آور یا منشیات تصور نہیں کیا جاتا۔