نیویارک: ایرانی صدر حسن روحانی اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس کے لیے نیو یارک پہنچ گئے تاہم ان کی امریکا میں موجودگی کے دوران انہیں شہر کے زیادہ تر مقامات تک جانے کی اجازت نہیں ہے۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ایران کے صدر کو اس ہی طرح کی سفری پابندیوں کا سامنا ہے جو جولائی کے مہینے میں ایرانی مشن کے اسٹاف پر لگائی گئی تھیں۔پابندیوں کے تحت حسن روحانی اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز سے زیادہ دور نہیں جاسکتے، جو مین ہیٹن جزیرے کے مشرقی حصے میں قائم ہے۔
امریکی حکومت نے انہیں ہوٹل میں قیام کی خصوصی اجازت دے رکھی ہے۔حسن روحانی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے بدھ کے روز خطاب کریں گے اور پریس کانفرنس بھی کریں گے۔ایرانی رہنما کو فرسٹ ایوینیو اور جنوب میں ایسٹ 42 اسٹریٹ اور شمال میں ایسٹ 48 اسٹریٹ تک محدود کیا گیا ہے۔اس ہی طرح کی پابندیاں ماضی میں امریکا کے ناپسندیدہ عالمی رہنماوں پر بھی عائد کی جاچکی ہیں جن میں کیوبا کے سابق رہنما فیدل کاسٹرو بھی شامل ہیں۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں ایران سے جوہری معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے تجارتی اور معاشی پابندیاں عائد کردی تھیں جبکہ معاہدے کے دیگر عالمی فریقین برطانیہ، جرمنی، فرانس، روس اور چین نے ایران سے معاہدہ جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا۔
امریکا اور ایران کے درمیان جاری کشیدگی میں گزشتہ ہفتے اس وقت مزید اضافہ ہوا جب سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات پر ڈرون حملے کیے گئے تھے جس کے بعد تیل برآمد کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی آرامکو نے اپنی پیداوار روک دی تھی۔
سعودی تیل کی تنصیبات پر حملے کے بعد امریکا اور سعودی عرب دونوں نے ایران کو اس کا براہ راست ذمہ دار قرار دیا تھا تاہم ایران نے ان بیانات کو جنگ کے لیے ایک بہانہ قرار دیا تھا اور واضح کیا تھا کہ ایران جنگ کے لیے تیار ہے اس لیے کسی قسم کی جارحیت سے گریز کیا جائے۔