ایمز ٹی وی (فارن ڈیسک) برازیلین عدالت نے ایک ہی خاندان کے 3 آدم خوروں کو جرم ثابت ہونے پر 20 سے 23 سال قید کی سزائیں سُنائی ہیں ۔ یہ خاندان انسانوں کو قتل کرکے ان کے گوشت سے پیسٹریز ، برگر اور ڈرم اسٹک بنا کر اپنی دکان پر فروخت کرتا تھا۔ تینوں مجرموں نے کم از کم پانچ خواتین کو اپنے گھر میں بلا کر انہیں ذبح کیا ، پھر ان کے گوشت کے پارچے بنا کر اپنے ریفریجریٹرمیں رکھے۔
سماعت کے دوران آدم خور فیملی کے سربراہ ’’ جورگے ‘‘ نے تسلیم کیا کہ وہ ایک خاص فرقے سے تعلق رکھتا ہے ، جس کی تعلیمات میں انسانی گوشت کا بطور خوراک استعمال کرنا ممنوع نہیں ہے ،اس لئے اس نے اور اس کی فیملی نے خود بھی یہ انسانی گوشت کھایا اور اپنی بیکری کے پیٹس ، برگرز اور سموسوں میں ان بدقسمت خواتین کا قیمہ بنا کر ڈالا اور انہیں اپنے گاہکوں میں یہ کہہ کر فروخت کیا کہ یہ ’’ اسنیک ‘‘ خصوصی طور پر’’ ٹونا فش ‘‘ اور ’’ جنگلی مُرغی کے گوشت ‘‘ سے نت نئی تراکیب سے تیار کیے گئے ہیں ۔ حکام نے آدم خور فیملی کے سربراہ ’’ جورگے بیلٹ راؤ ‘‘ کے گھر کے عقب سے کھدائی کرکے کم از کم تین خواتین کے ڈھانچے برآمد کئے ہیں ، جبکہ پولیس کو شبہ ہے کہ انہوں نے باقی خواتین کی لاشوں کو گوشت اُتار کر انہیں کہیں پھینک دیا گیا ہے یا دفن کر دیا گیا ہے ۔