لانس نائیک محمد محفوظ 1971 کی جنگ میں واہگہ اٹاری سیکٹر کے محاذ پر بھارتی فوج کيخلاف بڑی شجاعت اور دلیری سے لڑے۔
دشمن کی گولہ باری سے جب وہ شدید زخمی ہوئے اور ان کی بندوق بھی ناکارہ ہوگئی تو وہ بےتيغ دشمن کے بنکر میں گھس گئے۔
محفوظ شہید 25 اکتوبر 1944 کو پنڈ ملکاں میں پیدا ہوئے اور 25 اکتوبر 1962 کو بری فوج میں شمولیت اختیار کی۔
ان کی بہادری کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے ان کو اعلیٰ ترین فوجی اعزاز ’’نشان حیدر‘‘ سے نوازا جبکہ بھارتی کمانڈر نے بھی محفوظ شہید کی شجاعت کا اعتراف کیا۔ وہ محفوظ آباد کے مقام پر آسودۂ خاک ہیں۔
انیس سو اکہترکی جنگ میں واہگہ اٹاری سیکٹرکے محاذ پر بھارتی فوج کی گولہ باری سے زخمی ہونے کے باوجود دشمن کے بنکر میں نہتا گھس کر بھارتی فوجی کوجہنم واصل کرکے جام شہادت نوش کرنے والے قوم کے بہادر سپوت لانس نائیک محمد محفوظ شہیدکی شہادت کوآج اڑتالیس برس بیت گئے
لانس نائیک محمد محفوظ شہید پچیس اکتوبرانیس سو چوالیس کو پنڈملکاں میں پیدا ہوئے اور اپنی اٹھارویں سالگرہ کے دن پچیس اکتوبرانیس سو باسٹھ کوبری فوج میں شامل ہوئے، وہ انیس سو اکہترکی جنگ کے وقت واہگہ اٹاری سیکٹر میں تعینات تھے۔
سولہ دسمبرانیس سو اکہترکوجب جنگ بندی کا اعلان ہوا توپاک فوج نے اپنی کارروائیوں کو بندکردیا، دشمن نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اورپل کنجری کا جوعلاقہ پاک فوج کے قبضے میں آچکا تھا واپس لینے کے لیے سترہ اور اٹھارہ دسمبرکی درمیانی شب زبردست حملہ کر دیا-
پاک فوج میں لانس نائیک محمد محفوظ کی پلاٹون نمبرتین ہراول دستے کے طورپرسب سے آگے تھی چنانچہ اسے خود کارہتھیاروں کا سامنا کرنا پڑا، محفوظ شہید نے بڑی شجاعت اور دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے دشمن کی گولہ باری سے شدیدزخمی ہونے کے باوجود غیر مسلح حالت میں دشمن کے بنکرمیں گھس کرہندوستانی فوجی کودبوچ لیااورسترہ دسمبرکو ایسی حالت میں جام شہادت نوش کیاکہ مرنے کے بعد بھی دشمن کی گردن انکے ہاتھوں کے آہنی شکنجے میں تھی۔اس تمام معرکے کے دوران دشمن کی 3 سکھ لائٹ انفنٹری کے کمانڈنگ آفیسر کرنل پوری جوکہ اگلے مورچے میں تھا اور محفوظ کی تمام بہادری کی کاروائی دیکھ چکا تھا فائر بندی کے بعد جب شہداء کی لاشیں اٹھائی جا رہی تھیں تو دشمن لانس نائیک محمد محفوظ کا جسد ِمبارک خود اُٹھا کر لائے اور کمانڈنگ آفیسر نے محفوظ کی بہادری کا اعتراف ان الفاظ میں کیا کہ ’’میں نے اپنی تمام سروس کے دوران اتنا بہادر جوان کبھی نہیں دیکھااگر یہ انڈین آرمی کا جوان ہوتا تو آج میں اس بہادر جوان کو انڈین آرمی کے سب سے اعلی فوجی اعزاز کیلیئے پیش کرتا-‘‘
محمد محفوظ شہید ؒ مڈل ویٹ باکسنگ کے چمپیئن تھے۔باکسنگ میں مہارت کیوجہ سے آپکے ساتھی آپکو پاکستانی محمد علی کے نام سے پکارتے تھے
اس بہادری کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے لانس نائیک محمد محفوظ شہیدکواعلیٰ ترین فوجی اعزاز ’’ نشان حیدر’’ سے نوازا، لانس نائیک محمد محفوظ شہیدؒ کو نشان حیدر کا اعزاز 23 مارچ 1972ء کو ایوان صدر اسلام آباد میں منعقدہ خصوصی باوقار تقریب میں انکے والدگرامی مہربان خان نے حاصل کیا۔وہ محفوظ آباد کے مقام پرآسودۂ خاک ہیں-
ایمز ٹی وی (کراچی) 1965 اور 1971 کی جنگوں میں نمایاں خدمات انجام دینے والے جنگی ہیرو ائیرمارشل انعام الحق انتقال کرگئے ہیں۔ ترجمان پاک فضائیہ کے مطابق 1965 اور 1971 کی جنگوں میں پاک فضائیہ کی نمائندگی کرنے والے ائیرمارشل انعام الحق راولپنڈی میں انتقال کرگئے ہیں ان کی عمر 90 برس تھی۔ پاک فضائیہ کے سربراہ ائیرچیف مارشل سہیل امان نے قومی ہیرو کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔
جنگی ہیرو ائیرمارشل انعام الحق خان مئی 1927 میں ہندوستان کے شہر پٹیالہ میں پیدا ہوئے، انہوں نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں نمایاں خدمات انجام دیں اور انہیں ستارہ امتیاز ملٹری، ہلال امتیاز ملٹری اور ہلال جرات سے بھی نوازا گیا۔ ترجمان پاک فضائیہ کے مطابق ائیرمارشل انعام الحق کی نماز جنازہ کل پی اے ایف بیس نور خان میں فوج اعزاز کے ساتھ ادا کی جائے گی۔
ایمزٹی وی(اسلام آباد)وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ملک کی بقاءکیلئے دہشت گردی کا مقابلہ ضروری ہے اور قوم نے عہد کیا ہے کہ آخری دہشتگرد کا بھی پیچھا کریں گے ۔”دہشتگردوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کریں گے “۔دہشتگردی کا مقابلہ کیے بغیر ملک کو قائم نہیں رکھ سکتے۔
قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو چودھری نثار علی خان سے کچھ مسائل ہیں تاہم وہ فرض شناس، اصول پسند اور دیانتدار وزیر داخلہ ہیں جو اصول پر سیاست کرتے ہیں اور ڈٹ جاتے ہیں۔ امید ہے کہ نئی جماعتیں سیاسی بلوغت کی طرف آئیں گی.
ایک سوال پر انکا کہنا تھا کہ سی پیک کو نہ سمجھنے والے اس پر تبصرے کررہے ہیں ۔چینی سمجھدار ہیں اور انہیں پتہ ہے کہ پیسہ کہاں لگانا اور کیسے واپس لے کر جانا ہے ۔ وہ ہماری مرضی سے پیسہ نہیں لگائیں گے ۔”چین کی ترجیحات ہیں کہ پیسہ جلد ریکوری والے منصوبوں پر لگایا جائے “۔
خواجہ سعد رفیق نے مزید کہا کہ 1971ءمیں اگر اکثریت کو تسلیم کر لیا جاتا تو پاکستان نہ ٹوٹتا ،یہ نعرہ لگایا گیا کہ جو ادھر جائے گا اس کی ہڈیاں توڑ دی جائیں گی۔ ایوب خان کے مارشل لاءنے حالات بہت خراب کیے ۔ ملک ٹوٹنے کا سبب بننے والوں نے آج تک معافی نہیں مانگی ۔
۔انہوں نے کہا کہ اقلیت اکثریت پر حکمرانی کرنے کی کوشش نہ کرے اور آئین کی حکمرانی کو تسلیم کیا جائے ۔لوگوں کو محکوم بنا کر رکھنے کی خواہش سے گریز کیا جائے ۔آرمی پبلک سکول کے سانحے نے سب کے دل چکنا چور کر کے رکھ دیے ہیں تاہم ہم انے بچوں کو کبھی نہیں بھلائیں گے ۔
وفاقی وزیر نے ایک سوال پر جواب دیا کہ مشرقی پاکستان میں قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں ہونے دیا گیا۔ سقوط ڈھاکہ او ر سانحہ اے پی ایس کے گہرے اثرات ہیں ۔