جمعہ, 22 نومبر 2024

مشرف کو سزائے موت: بلاول نے اپنی والدہ کی قتل سے قبل آخری لمحے کی تصویر کیوں پوسٹ کی؟

 سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت  دیئے جانے کے فیصلے کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کی قتل سے چند لمحے قبل ان کے آخری جلسے کی تصویر پوسٹ کی۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پر پرویز مشرف سے متعلق فیصلے پر ٹویٹ کیا، ’جمہوریت بہترین انتقام ہے، جئے بھٹو‘۔

بلاول نے اپنے ٹویٹ میں اپنی والدہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی تصویر بھی پوسٹ کی، جو سنہ 2007 میں ان کے قتل سے چند لمحے قبل ان کے آخری جلسے کی ہے۔

اس جلسے کے بعد بے نظیر بھٹو کے قافلے پر خودکش دھماکہ ہوا تھا جبکہ بے نظیر بھٹو کو فائرنگ کر کے قتل کیا گیا تھا، اس وقت اقتدار پر براجمان سابق صدر پرویز مشرف کو بے نظیر بھٹو کے قتل کیس میں بھی نامزد کیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ آج خصوصی عدالت نے آئین شکنی کیس میں محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت دینے کا حکم دیا ہے۔

سابق صدر پرویز مشرف اس وقت دبئی میں مقیم ہیں اور شدید علیل ہیں۔ وہ اپنے کیس کی پیروی کے لیے ایک بار بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

 

ایمزٹی وی(کراچی) چیف جسٹس سپریم کورٹ انور ظہیر جمالی نے سینٹرل جیل کراچی میں خصوصی عدالت کی عمارت کا افتتاح کر دیا ہے ، اس موقع پر چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ جسٹس سجاد علی شاہ اور دیگر حکومتی اراکین بھی موجود تھے
افتتاح کے بعد تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کا کہنا تھا کہ 20عدالتوں کی اسکیم کا پہلا فیز چھ عدالتوں پر مشتمل ہے اورعدالتوں کے قیام سے زیرالتوامقدمات کوجلدنمٹانے میں مددملے گی۔

”انسداد دہشت گردی کی عدالتیں جیل میں بہتر کام کریں گی “۔انصاف کی جلداورفوری فراہمی اولین فرائض میں شامل ہے۔
ان کا کہناتھا کہ عدلیہ آئین کے تحت تیسرا اہم ستون ہے۔حکومت عدلیہ کے بہترانفرااسٹرکچرکے قیام میں مددکررہی ہے۔حکومت سندھ کا کردار قابل ستائش ہے کیونکہ یہ منصوبہ حکومتی وعدوں کی تکمیل میں اہم قدم ہے۔

 


ایمزٹی وی(اسلام آباد)نئے عدالتی سال کے موقع پر سپریم كورٹ میں فل کورٹ ریفرنس منعقد ہوا۔ جس میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی سمیت عدالت عظمیٰ کے تمام فاضل جج صاحبان، اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتہر علی اوصاف، وائس چیئر مین پاکستان بار کونسل بیرسٹر فروغ نسیم اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر سید علی ظفر سمیت دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی۔

ریفرنس سے خطاب کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ آئین میں تمام اداروں کےفرائض اورذمہ داریوں کی وضاحت کردی گئی ہے، تمام ادارے اپنی آئینی اور قانونی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کریں، دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ہی گڈ گورننس کو یقینی بنایا جاسکتا ہے، تمام ادارے اپنی کارکردگی کو بہتر بنائیں تو کرپشن اور بد امنی کا خاتمہ ہوگا۔ کرپشن کے خاتمے سے لوگوں کو غیر ضروری عدالتی چارہ جوئی سے نجات ملے گی۔

چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا کہ سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے، جہاں بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو، ضروری ہے اس کا تدارک کیا جائے، کراچی اور بلوچستان بدامنی کیس میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے۔ قائد اعظم کا مقصد سیکولر پاکستان بنانا نہیں تھا، پاکستان کے قیام کا مقصد تھا کہ ہرمذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو برابر حقوق ملیں، پاکستان کا آئین ہر شہری کو مکمل مذہبی آزادی کی ضمانت فراہم کرتاہے، عدالت اپنی آئینی ذمہ داریوں پر آنکھ بند نہیں رکھ سکتی، اسی بات کومدنظررکھ کرعدالت نے گزشتہ سال چند معاملات پر ازخود نوٹس بھی لیے۔

ملک میں جاری دہشت گردی سے متعلق چیف جسٹس نے کہا کہ دہشت گردی میں بیرونی ہاتھ اور اندرونی حمایت شامل ہوتی ہے، عدالت تخریبی عناصر کے سیاسی و مذہبی جماعتوں سے روابط کے تدارک کا کہہ چکی ہے، فراہمی انصاف کے اداروں کو خوف زدہ کرنے کے لئے تخریبی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اس لئے وکلاء اورعدلیہ بھی دہشت گردی سے متاثر ہوئے ہیں۔ بدلتی صورت حال کے پیش نظرتمام ریاستی اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

تقریب کے بعد صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران جب ان سے سوال کیا گیا کہ ایک بار پھر تمام نظریں سپریم کورٹ کی طرف ہیں اور تمام لوگ سپریم کورٹ کو امید کی نظر سے دیکھ رہے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ وہ 1965 میں قائد اعظم ٹرافی کھیل چکے ہیں اور ان کے ہمراہ ظہیرعباس کھیلتے تھے، وہ روایتی کھلاڑی ہیں، کبھی کریز سے باہر نکل کر نہیں کھیلتے۔ سپریم کورٹ آئین اور قانون کے مطابق ذمے داریاں پوری کرے گی۔