جمعہ, 17 مئی 2024

لانس نائیک محمد محفوظ 1971 کی جنگ میں واہگہ اٹاری سیکٹر کے محاذ پر بھارتی فوج کيخلاف بڑی شجاعت اور دلیری سے لڑے۔

دشمن کی گولہ باری سے جب وہ شدید زخمی ہوئے اور ان کی بندوق بھی ناکارہ ہوگئی تو وہ بےتيغ دشمن کے بنکر میں گھس گئے۔

محفوظ شہید 25 اکتوبر 1944 کو پنڈ ملکاں میں پیدا ہوئے اور 25 اکتوبر 1962 کو بری فوج میں شمولیت اختیار کی۔

ان کی بہادری کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے ان کو اعلیٰ ترین فوجی اعزاز ’’نشان حیدر‘‘ سے نوازا جبکہ بھارتی کمانڈر نے بھی محفوظ شہید کی شجاعت کا اعتراف کیا۔ وہ محفوظ آباد کے مقام پر آسودۂ خاک ہیں۔

انیس سو اکہترکی جنگ میں واہگہ اٹاری سیکٹرکے محاذ پر بھارتی فوج کی گولہ باری سے زخمی ہونے کے باوجود دشمن کے بنکر میں نہتا گھس کر بھارتی فوجی کوجہنم واصل کرکے جام شہادت نوش کرنے والے قوم کے بہادر سپوت لانس نائیک محمد محفوظ شہیدکی شہادت کوآج اڑتالیس برس بیت گئے

لانس نائیک محمد محفوظ شہید پچیس اکتوبرانیس سو چوالیس کو پنڈملکاں میں پیدا ہوئے اور اپنی اٹھارویں سالگرہ کے دن پچیس اکتوبرانیس سو باسٹھ کوبری فوج میں شامل ہوئے، وہ انیس سو اکہترکی جنگ کے وقت واہگہ اٹاری سیکٹر میں تعینات تھے۔

سولہ دسمبرانیس سو اکہترکوجب جنگ بندی کا اعلان ہوا توپاک فوج نے اپنی کارروائیوں کو بندکردیا، دشمن نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اورپل کنجری کا جوعلاقہ پاک فوج کے قبضے میں آچکا تھا واپس لینے کے لیے سترہ اور اٹھارہ دسمبرکی درمیانی شب زبردست حملہ کر دیا-

پاک فوج میں لانس نائیک محمد محفوظ کی پلاٹون نمبرتین ہراول دستے کے طورپرسب سے آگے تھی چنانچہ اسے خود کارہتھیاروں کا سامنا کرنا پڑا، محفوظ شہید نے بڑی شجاعت اور دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے دشمن کی گولہ باری سے شدیدزخمی ہونے کے باوجود غیر مسلح حالت میں دشمن کے بنکرمیں گھس کرہندوستانی فوجی کودبوچ لیااورسترہ دسمبرکو ایسی حالت میں جام شہادت نوش کیاکہ مرنے کے بعد بھی دشمن کی گردن انکے ہاتھوں کے آہنی شکنجے میں تھی۔اس تمام معرکے کے دوران دشمن کی 3 سکھ لائٹ انفنٹری کے کمانڈنگ آفیسر کرنل پوری جوکہ اگلے مورچے میں تھا اور محفوظ کی تمام بہادری کی کاروائی دیکھ چکا تھا فائر بندی کے بعد جب شہداء کی لاشیں اٹھائی جا رہی تھیں تو دشمن لانس نائیک محمد محفوظ کا جسد ِمبارک خود اُٹھا کر لائے اور کمانڈنگ آفیسر نے محفوظ کی بہادری کا اعتراف ان الفاظ میں کیا کہ ’’میں نے اپنی تمام سروس کے دوران اتنا بہادر جوان کبھی نہیں دیکھااگر یہ انڈین آرمی کا جوان ہوتا تو آج میں اس بہادر جوان کو انڈین آرمی کے سب سے اعلی فوجی اعزاز کیلیئے پیش کرتا-‘‘

محمد محفوظ شہید ؒ مڈل ویٹ باکسنگ کے چمپیئن تھے۔باکسنگ میں مہارت کیوجہ سے آپکے ساتھی آپکو پاکستانی محمد علی کے نام سے پکارتے تھے

اس بہادری کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے لانس نائیک محمد محفوظ شہیدکواعلیٰ ترین فوجی اعزاز ’’ نشان حیدر’’ سے نوازا، لانس نائیک محمد محفوظ شہیدؒ کو نشان حیدر کا اعزاز 23 مارچ 1972ء کو ایوان صدر اسلام آباد میں منعقدہ خصوصی باوقار تقریب میں انکے والدگرامی مہربان خان نے حاصل کیا۔وہ محفوظ آباد کے مقام پرآسودۂ خاک ہیں-

 

ایمزٹی وی (لاہور)یوم دفاع پاکستان کے موقع پر ملک بھر میں تقاریب کا سلسلہ جاری ہے اور شہدا کی یادگاروں پر پھول بھی چڑھائے جا رہے ہیں۔ دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرکے نشانِ حیدر پانے والے شہدا کے مزاروں پر خصوصی تقاریب بھی منعقد کی گئی ہیں جہاں اعلیٰ سول و فوجی حکام کے علاوہ عام لوگوں کی بڑی تعداد بھی شریک ہو رہی ہے۔
1971 میں جام شہادت نوش کرکے نشانِ حیدر پانے والے میجر شبیر شریف شہید کے مزار پر بھی خصوصی تقریب ہوئی جس میں سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف نے خصوصی طور پر شرکت کی۔ راحیل شریف نے شہید کے مزار پر پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی ، اس موقع پر پاک فوج کے چاق و چوبند دستے نے شہید کو سلامی دی۔ اس کے علاوہ میجر شبیر شریف شہید کے بیٹے تیمور اور خاندان کے دیگر افراد نے بھی شہید کی قبر پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔
واضح رہے کہ میجر شبیر شریف شہید سابق آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کے بڑے بھائی تھے، انہوں نے 1971 کی جنگ میں بھارت کے خلاف جنگ میں دشمن کے چھکے چھڑا دیے اور جام شہادت نوش کیا، جس پر انہیں سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔
 

 

 

ایمزٹی وی (اسلام آباد)پاکستان بھر میں 52 واں یوم دفاع6 ستمبر یعنی آج انتہائی جوش و جذبے سے منایا جا رہا ہے۔ یوم دفاع کے موقع پر شہدا کی یاد گاروں پر پھول چڑھائے جائیں گے اور فاتحہ خوانی کی جائے گی۔ یوم دفاع کی مرکزی تقریب جنرل ہیڈ کوارٹرز راولپنڈی میں ہو گی جس میں شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا جائے گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ تقریب کے مہمان خصوصی ہوں گے۔ یوم دفاع کا دن یعنی 6ستمبر 1965کو افواج پاکستان کے بہادر سپوتوں نے دشمن کو کاری ضرب لگا کر منہ توڑ جواب دیا اور ثابت کیا کہ پاک فوج وطن کے دفاع کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرے گی۔ دن کا آغاز نماز فجر کے بعد مساجد میں ملکی سلامتی، ترقی اورخوشحالی کے لیے خصوصی دعاؤں سے ہوگاجبکہ وفاقی دارالحکومت میں 31،صوبائی دارالحکومتوں میں 21، 21 توپوں کی سلامی دی جائےگی۔ یوم دفاع کے موقع پر پاک فضائیہ کی جانب سے نور خان ائیر بیس پر پاک فضائیہ کے ائیر کرافٹ کی نمائش ہو گی جبکہ تمام کنٹونمنٹس کے ساتھ مختلف شہروں میں پروقار تقاریب کا اہتمام کیاجائے گا ۔ 6 ستمبر 1965کی جنگ میں جام شہادت نوش کرنے والے شہداکی یاد گاروں پر پھول چڑھائے جائیں گےتاہم میجر شبیر شریف شہید (نشان حیدر)، میجر عزیز بھٹی شہید ( نشان حیدر) سمیت دیگر شہدا کی آخری آرام گاہوں پربھی خصوصی تقریبات کا انعقاد کیا جائے گا۔ اس موقع پر ملک بھر میں سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کئے گئے ہیں۔

 

 

ایمزٹی وی (کراچی) پاک فضائیہ کے پائلٹ راشد منہاس شہید کا 46 واں یوم شہادت آج ملک بھرمیں عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔
17 فروری 1951 کو کراچی میں پیدا ہونے والے راشد منہاس نے سینٹ پیٹرک کالج سے سینئیر کمیبرج پاس کیا، ان کے خاندان کے متعدد افراد پاکستان کی مسلح افواج میں اعلیٰ عہدوں پرفائز تھے جس نے ان کے دل میں موجود مادر وطن کے دفاع کے جذبے کو مزید تقویت دی اوراپنے ماموں ونگ کمانڈرسعید سے جذباتی وابستگی کی بنا پر1968 میں پاک فضائیہ میں شمولیت اختیار کی۔ 1971 میں راشد مہناس نے اکیڈمی سے جنرل ڈیوٹی پائلٹ کی حیثیت سے گرجوٹ کیا اورانہیں کراچی میں پی اے ایف بیس مسرور پر پوسٹ کیا گیا تاکہ لڑاکا پائلٹ کی تربیت حاصل کرسکیں۔
20 اگست 1971 کو راشد منہاس مسروربیس کراچی سے اپنی تیسری تنہا پروازکے لئے جب وہ T-33 جیٹ سے روانہ ہونے لگے تو ان کا انسٹرکٹرمطیع الرحمن ان کے ساتھ زبردستی طیارے میں سوار ہوگیا۔ مطیع الرحمن طیارے کو بھارت کی حدود میں لے جانا چاہتا تھا، راشد منہاس نے بھرپور مزاحمت کی لیکن کامیاب نہ ہونے پرمطیع الرحمن کے عزائم خاک میں ملاتے ہوئے طیارے کا رخ زمین کی جانب کردیا اس طرح طیارہ بھارتی سرحد سے صرف 32 میل پہلے ٹھٹھہ میں گرکرتباہ ہوگیا۔
وطن کی خاطراپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے راشد منہاس کوان کی بے مثال قربانی پراعلیٰ ترین فوجی اعزارنشان حیدر سے نوازا گیا،وہ اعلیٰ ترین فوجی اعزازحاصل کرنے والے پاک فضائیہ کے واحد افسر ہیں جنہوں نے اپنی جان قربان کرکے ملک کے دفاع اور حرمت کی لاج رکھی۔ راشد منہاس کو 21 اگست 1971 کو مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا گیا اور ان نوجوان پائلٹ کے پورے خاندان سمیت پاک فضائیہ اور دیگر مسلح افواج کے عہدیداران اس موقع پرموجود تھے۔

 

 

ایمزٹی وی (پشاور)پیپلزپارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری سے آرمی پبلک اسکول کے شہدا کوو یاد کرکے آبدیدہ ہوگئے۔
ذرائع کے مطابق سابق صدر آصف علی زرداری سے سانحہ آرمی پبلک اسکول کے والدین کے وفد نے ملاقات کی جس دوران سابق صدر شہدا کو یاد کرکے آبدیدہ ہوگئے۔
 
وفد میں شامل والدین نے اپنے بچوں کی تصاویر بھی اٹھا رکھی تھیں۔
اس موقع پر آصف زرداری کا کہنا تھا کہ سانحہ اے پی ایس میں بچوں پر انتہائی ظلم کیا گیا، ہم بچوں کو شہید کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے شہدا فورم کے وفد کو یقین دلایا کہ وہ ان کے مطالبات سینیٹ میں پیش کرنے کا کہیں گے اور شہدا کو نشان حیدر دینے کے لیے سینٹ میں قرارداد بھی پیش کریں گے۔
واضح رہے سابق صدر آصف علی زرداری اس وقت پشاور کے دورے پر ہیں:

 

 

ایمزٹی وی (گجرات)سابق آرمی چیف جنرل(ر)راحیل شریف کے بڑے بھائی میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر کا یوم ولادت آج عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ تفصیلا ت کے مطابق شہید میجر شبیر شریف 28 اپریل 1943 ءکو گجرات میں پیدا ہوئے اور 1964 ءمیں 21 برس کی عمر میں پاک فوج میں شمولیت اختیار کی جبکہ ان کے والد شریف احمد بھی فوج میں میجر کے عہدے پر فائز رہے۔
میجر شبیر شریف کو 1971 کی پاک بھارت جنگ میں سلیمانکی سیکٹر میں فرنٹیئر فورس رجمنٹ کی ایک کمپنی کو اونچے بند پر قبضہ کی ذمہ داری سونپی گئی تھی جس پر پہلے ہی بھارتی فوج کا قبضہ تھا۔میجر شبیر شریف شہید نے اس مقابلے میں43 سپاہیوں کو ہلاک کیا اور 28 کو قیدی بنانے کے علاوہ دشمن کے 4 ٹینکوں کو بھی تباہ و برباد کردیا۔1971 ءکی جنگ میں 6 دسمبر کو ہیڈسلیمانکی کی حفاظت کے موقع پر دشمن کے ٹینک کا گولہ ان کو لگا اور صرف 28 برس کی عمر میں جام شہادت نوش کرگئے۔

 


ایمزٹی وی (گلگت بلتستان) یوم دفاع پاکستان کے موقعے پر قومی ہیرو شہیدلالک جان نشان حیدر کے مزار پر حاضری کے بعد منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئےفورس کمانڈر گلگت بلتستان میجر جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ ارض پاکستان کے دفاع کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا جو سبق ہمیں شہید لالک جان نشان حیدر کی بے مثال قربانی سے ملا ہے وہ ایک عظیم ورثہ ہے اور ہر زندہ قوم کا سرمایہ ءافتخار ہوتا ہے ہمیں اپنی وراثت پر فخر ہے جو جوان مردی ،ہمت اور جرات کی روایت ہمارے شہیدوں اور غازیوں نے ڈالی ہے اس پر کسی صورت آنچ نہیں دیں گے

فورس کمانڈر نے مزید کہا کہ چھ ستمبر ملکی تاریخ میں ایک اہم دن کی حیثیت رکھتا ہے جب دشمن نے اپنی عددی برتری کے نشے میں ہمارے پاک وطن پر حملہ کیا تھا مگر ہماری بہادر افواج نے اپنی جان کی بازی لگاکر اس سرزمین کی حفاظت کی اس دن ہماری افواج کے ساتھ بہادر قوم نے بھی بے مثال قربانیاں دے کر ملک سے والہانہ محبت کا اظہار کیا اور عظیم کارنامہ انجام دیا جو تاریخ کا حصہ بن چکا ہے

ہماری قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اور ضرب عضب کی کاری ضرب کی بدولت دہشت گردوں کا نیب ورک غیر موثر ہوچکاہے پاکستان کو دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ملنے والی گرانقدر کامیابیاں افواج پاکستان کے سپوتوں اور پاکستانی شہریوں کی ان قربانیوں کے مرہون منت ہیں جو انہوں نے ملک کی سالمیت اور دفاع کےلئے سرانجام دی ہیں ہماری افواج کے بہادر افسرز اور جوان آج بھی مختلف محاذوں پر پاکستان دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہیں اور ملک اسلام اور قوم کی بقاءکےلئے اپنا خون نچھاور کر کے دشمن کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ ان کے جیتے جی پاکستان کی سلامتی کو متنزلزل نہیں کرسکتا ہے

انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان جدید دفاعی سازو سامان سے لیس ایسی تنظیم ہے جن کا مقابلہ دنیا کی کسی بھی ترقی یافتہ افواج سے کیا جاسکتا ہے اور الحمداللہ پاکستان کی قوم اپنی افواج کے ساتھ کھڑی ہے ۔اور اللہ نے چاہا تو وہ دن دور نہیں جب وطن عزیز میں امن کا دوردورہ ہوگا اور پاکستان کا پرچم دنیاکی ترقی یافتہ اقوام کی صف میں نمایاں طورپرلہراتا دکھائی دےگا۔

ایمزٹی وی(راولپنڈی)بحریہ ٹاون کے چیئرمین ملک ریاض نے کہا ہے کہ اگر آرمی چاہے تو بحریہ ٹاﺅن6 ستمبر کے شہداءکے ورثاءکی خدمت کیلئے تیار ہے ۔

سرینا ویلی بحریہ ٹاؤن فیز 8 راولپنڈی میں 15من کانسی سے بنےنشان حیدرکے ڈسپلے کا افتتاح کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انکا کہنا تھا کہ حکومت چھ ستمبر کے شہداء کے ورثاء کیلئے کچھ نہیں کر رہی اس لیے ہمیں انکے لیے کچھ کرنا چاہئیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کچھ نہیں کر رہی تو ہمیں خود شہداءکے ورثاءکیلئے کچھ کرنا چاہئیے ۔بحریہ ٹاﺅن کی جانب سے کانسی کا نشان حید ر6 ستمبر کے شہداءکو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے تیار کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ فوج بہت کچھ کر رہی ہے مگر فوج کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی شہداٗء کے ورثاء کیلئے کچھ کرنا چاہئیے۔