جمعہ, 22 نومبر 2024

اسلام آباد: خصوصی عدالت نے سابق صدر اور جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو آئین شکنی کیس میں سزائے موت کا حکم سنا دیا۔

تفصیلات کے مطابق خصوصی عدالت میں جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے محفوظ شدہ فیصلہ سنا دیا، سابق صدر پرویز مشرف کو سزائے موت سنا دی گئی۔ خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ میں شامل ایک جج نے سزائے موت سے اختلاف کیا، تاہم خصوصی عدالت کے بینچ نے اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ سنایا۔

عدالت نے اپنے مختصر فیصلے میں کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف پر آئین کے آرٹیکل 6 کو توڑنے کا جرم ثابت ہوا ہے۔

قبل ازیں، اسلام آباد میں خصوصی عدالت میں پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کیس کی سماعت ہوئی، سابق صدر کی جانب سے ان کے وکیل نے خصوصی عدالت میں دفعہ تین سو بیالس میں بیان ریکارڈ کرانے کی درخواست دائر کر دی۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ پرویز مشرف دفعہ 342 کا بیان ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں، خصوصی عدالت بیان ریکارڈ کرانے کے لیے عدالتی کمیشن تشکیل دے، اور عدالتی کمیشن یو اے ای جا کر پرویز مشرف کا بیان ریکارڈ کرے

دوسری طرف حکومت نے مشرف کے خلاف فرد جرم میں ترمیم کی درخواست دائر کر دی ہے، جس میں شوکت عزیز، عبد الحمید ڈوگر اور زاہد حامد کو ملزم بنانے کی استدعا کی گئی ہے، پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ مشرف کے سہولت کاروں اور ساتھیوں کو ملزم بنانا چاہتے ہیں، تمام ملزمان کا ٹرائل ایک ساتھ ہونا ضروری ہے۔

عدالت نے اس پر کہا کہ ساڑھے 3 سال بعد ایسی درخواست کا مطلب ہے کہ حکومت کی نیت ٹھیک نہیں، جسٹس شاہد کریم نے ریمارکس دیے کہ آج مقدمہ حتمی دلائل کے لیے مقرر تھا تو نئی درخواستیں آ گئیں۔ جسٹس نذر اکبر نے کہا کہ جنھیں ملزم بنانا چاہتے ہیں ان کے خلاف کیا شواہد ہیں؟ تحقیقات اور شواہد کا مرحلہ تو گزر چکا ہے، کیا شریک ملزمان کے خلاف نئی تحقیقات ہوئی ہیں؟

پراسکیوٹر کا کہنا تھا کہ شکایت درج ہونے کے بعد ہی تحقیقات ہو سکتی ہیں، ستمبر 2014 کی درخواست کے مطابق شوکت عزیز نے مشرف کو ایمرجنسی کا کہا۔ جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ مشرف کی شریک ملزمان کی درخواست پر سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے، کیا حکومت مشرف کا ٹرائل تاخیر کا شکار کرنا چاہتی ہے؟

دریں اثنا، خصوصی عدالت نے استغاثہ کی جانب سے شوکت عزیز، زاہد حامد، سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو پارٹی بنانے کی دائر درخواست یہ کہہ کر واپس کر دی کہ آج کی عدالتی کارروائی مکمل ہو گئی ہے، درخواست دائر کرنے سے پہلے عدالت اور نہ ہی کابینہ سے منظوری لی گئی، پراسیکیوشن کی دیگر 2 درخواستوں پر بھی سماعت نہیں ہو سکتی، یہ دونوں درخواستیں عدالت کے سامنے نہیں ہیں۔

آئین شکنی کیس کی اہم باتیں

یاد رہے کہ پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا کیس مسلم لیگ ن نے نومبر 2013 میں درج کرایا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ آرمی چیف کی حیثیت سے پرویز مشرف نے 3 نومبر 2007 کو آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگائی۔ مارچ 2014 میں پرویز مشرف پر فرد جرم  عائد کی گئی۔ 2016 میں عدالتی حکم پر ای سی ایل سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔ مارچ 2018 میں چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ جسٹس یحیٰی آفریدی کی معذرت کے بعد سنگین غداری کیس میں پرویز مشرف کے خلاف کیس کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا تھا۔

گزشتہ برس مارچ میں سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے ملزم کی گرفتاری اور جائیداد ضبطی اور انٹرپول کے ذریعے گرفتار کر کے پاکستان لانے کا بھی حکم جاری کیا تھا۔ تاہم اگست میں سیکریٹری داخلہ نے انکشاف کیا کہ پرویز مشرف کو پاکستان لانے کے معاملے پر انٹرپول نے معذرت کرلی ہے اور کہا کہ سیاسی مقدمات ان کے دائرہ اختیار میں نہیں۔

5 دسمبر کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے وکیل کو آئین شکنی کیس میں دلائل دینے کا ایک اور موقع دیتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ سماعت آخری بار ملتوی کی جارہی ہے، کسی بھی وکیل کی عدم حاضری پر محفوظ فیصلہ 17 دسمبر کو سنا دیا جائے گا۔

خصوصی عدالت میں جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آئین شکنی کیس 19 نومبر کو فیصلہ محفوظ کیا تھا، جس پر 23 نومبر کو پرویز مشرف کی جانب سے عدالت سے رجوع کیا اور کہا کہ عدالت نے مؤقف سنے بغیر کیس کا فیصلہ محفوظ کیا ہے۔

2 دسمبر کو جنرل (ر) پرویز مشرف شدید علیل ہو گئے تھے، جس پر انھیں دبئی کے اسپتال میں داخل کیا گیا، اکتوبر کے مہینے میں ایک میڈیکل رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پرویز مشرف کو ایک جان لیوا بیماری لاحق ہے، اے آر وائی نیوز کو موصول ہونے والے تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ کے مطابق سابق صدر کو ’امیلوئی ڈوسس نامی خطرناک بیماری لاحق ہوئی تھی۔