اتوار, 19 مئی 2024

ایمزٹی وی(ایجوکیشن)ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز نے بیرونِ ممالک میں ملازمت کرنے والے پاکستانی گریجویٹس اور ڈاکٹروں کی تعلیمی دستاویزات کی توثیق کیلئے آن لائن ایپلی کیشن ٹریکنگ سسٹم متعارف کرادیا ہے ۔مذکورہ سسٹم کو متعارف کرائے جانے کا مقصد امریکا، برطانیہ سمیت مختلف ممالک میں اپنی خدمات انجام دینے والے پاکستانی گریجویٹس اور ڈاکٹروں کو اپنی تعلیمی دستاویزات کی تصدیق کیلئے سہولت فراہم کرنا ہے تفصیلات کے مطابق ڈاؤ یونیورسٹی نے ایک سافٹ ویئر تیار کیا جس کے ذریعے ڈاکٹرز اپنی اسناد کی تصدیق کیلئے دی گئی درخواست کی مکمل معلومات حاصل کرسکیں گے

ایمزٹی وی(اسلام آباد)پاکستان میں انسانی ترقی کی شرح گزشتہ برس کے مقابلے میں کم رہی، دنیا کے 188 ملکوں میں سے پاکستان کا انسانی ترقی کے حوالے سے 147 واں نمبر ہے، پاکستان میں اقتصادی ترقی صرف امیر لوگوں کے گرد گھومتی ہے، سرمایہ کاری کے بہتر مواقع بھی مال دار طبقہ کے لئے ہی ہیں، پاکستان میں 15 برس یا اس سے زیادہ عمر کے افراد میں بے روز گاری کی شرح 48 فیصد کے قریب ہے جبکہ ملک میں 8 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ افراد غربت کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقی ”یو این ڈی پی“ کی جانب سے 2015ءکے لئے جاری کی جانے والی انسانی ترقی کی سالانہ رپورٹ بہت سے پاکستانیوں کے لئے شدید تشویش کا باعث بنی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق انسانی ترقی کے حوالے سے پاکستان گزشتہ برس کے مقابلے میں بھی ایک نمبر پیچھے چلا گیا ہے۔ انسانی ترقی کے عالمی جائزے کا آغاز 1990ءمیں ایک پاکستانی ماہر معیشت ڈاکٹر محبوب الحق کی سربراہی میں کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 15 برس یا اس سے زیادہ عمر کے افراد میں بے روز گاری کی شرح 48 فیصد کے قریب ہے جبکہ ملک میں 8 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ افراد غربت کا شکار ہیں۔ پاکستان انسانی ترقی کے شعبے میں بہت پیچھے کیوں ہے؟ اس سوال کے جواب میں بہت سے اقتصادی ماہرین کا خیال ہے دہشت گردی کی جنگ، قدرتی آفات، بھاری قرضوں کے بوجھ اور محصولات کی وصولیوں میں کمی کی وجہ سے پاکستان انسانی ترقی کے لئے درکار رقوم خرچ کرنے کے قابل ہی نہیں تھا۔ اقتصادی امور کے ایک پاکستانی ماہر منصور احمد بتاتے ہیں پاکستان اپنی آمدن کا بڑا حصہ انسانی ترقی کے شعبوں پر خرچ کرنے سے قاصر رہا ہے۔ ترجیحات کے درست نہ ہونے اور کرپشن کی وجہ سے پاکستان اپنے ہیومن ریسورسز کو بہتر نہیں بنا سکا، اس لیے صحت، تعلیم اور دیگر شعبوں میں یہ اپنے ہمسایہ ملکوں میں بھی پیچھے ہے۔

ایمزٹی وی(انٹرنیشنل) بارش کے بعد آسمان پر بننے والی دلکش رنگوں کی قوس ایک دو نہیں بلکہ 12 مختلف انداز میں ترتیب پاتی ہیں۔فرانس میں قومی موسمیاتی تحقیقی سینٹر کے ماہر جین رچرڈ کے مطابق بارش کے بعد دو دو اور تین تین کے جوڑوں میں بھی قوسِ قزح اور دھنک بنتی ہیں۔دھنک بننے کے عمل سورج کی کرنیں پانی کے قطروں میں منعکس ( ریفلیکٹ) اور منعطف ( ریفریکٹ) ہوتی ہیں جس سے روشنی سات رنگوں میں تقسیم ہوجاتی ہے اور سات رنگوں کی کا ایک نیم دائرہ بنتا ہے۔لیکن روشنی کی مختلف طولِ موج ( ویو لینتھ) کی وجہ سے مختلف رنگ مختلف انداز میں مڑتے ہیں اور اس طرح مختلف انداز میں دھنک وجود میں آتی ہیں جنہیں ’ دھنک کے ذائقوں‘ کا نام دیا گیا ہے ان میں چار رنگوں اور پانچ رنگوں کی دھنک بھی ہوسکتی ہے اور انہیں آربی ون آربی ٹو اور آربی تھری وغیرہ کانام دیا ہے۔ دھنک کے ذائقوں کی کل تعداد 12 ہے۔

ایمز ٹی وی (فارن ڈیسک) ملائیشیا میں اسلامی اصولوں کے مطابق پہلی ایئرلائن نے اپنے آپریشن کا آغاز کردیا ہے جس میں مسافروں کو حلال کھانا پیش کیا جائے گا اور دوران پرواز شراب نوشی کی اجازت نہیں ہوگی۔

غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق ملائیشیا میں رایانی ائر کے نام سے نئی فضائی کمپنی نے اپنے آپریشن کا آغاز کردیا ہے۔ ایئرلائن اپنی پروازوں میں مسافروں کو حلال کھانا پیش کرےگی۔ دوران پرواز شراب نوشی کی اجازت نہیں ہو گی اور نا ہی الکوحل مشروبات سے مسافروں کی تواضع کی جائے گی۔

رایانی ائر کے ڈائریکٹر جعفر زمہاری کا کہنا ہے کہ پرواز کے دوران فضائی عملے میں شامل مسلمان خواتین میزبان باحجاب جب کہ غیر مسلم ایئرپوسٹسز ‘مہذب’ یونیفارم کی پابند ہوں گی۔ پرواز سے پہلے سفر کی دعا کی تلاوت ہو گی۔ جعفر زمہاری کا مزید کہنا تھا کہ فضائی کمپنی وقت کے ساتھ اسلامی تشریحات کے مطابق اپنے انداز میں مزید تبدیلی لائے گی۔

ایمز ٹی وی (ایجوکیشن) پڑھے لکھے پنجاب میں پرائمری سکولزکے دوسری جماعت کے 41 فیصد بچے انگریزی کا ایک جملہ تک نہیں پڑھ سکتے جبکہ پرائمری میں بچوں اور بچیوں کے سکول چھوڑنے کی شرح 26 فیصد ، خیبر پختونخوا میں 29، سندھ میں 45، بلوچستان میں 50 اور اسلام آباد میں 1 فیصد ہے ۔

اس ضمن میں ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق پنجاب میں اب بھی 6 فیصد پرائمری سکولوں میں پانی ،8 فیصد میں بیت الخلاء اور 13 فیصد میں چاردیواری کی سہولیات نہیں ہیں جبکہ مجموعی طور پر 13 فیصد سکولزکی عمارتیں تسلی بخش نہیں ہیں ، 6 فیصد سکول ایسے ہیں جہاں پر صرف ایک کمرہ جماعت اور 17 فیصد پرائمری سکولوں میں صرف ایک استاد ہے ۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب کےپرائمری سکولوں میں دوسری جماعت کے 37 فیصد بچے اردو کی کہانی تک نہیں پڑھ سکتے۔

Page 10 of 104