ایمزٹی وی(اسلام آباد)پاکستان نے جی ایس پی پلس اسٹیٹس برقرار رکھنےکےلیےمقامی قوانین میں مطلوبہ ترامیم کرکے چائلڈ پروٹیکشن کنونشن پرعمل درآمد یقینی بنا دیا ہے۔ بچوں سے مزدوری لینے اورجنسی تشددکے حوالے سے عالمی سطح پرحقوق انسانی کی تنظمیوں کی طرف سے پاکستان کوسخت تنقیدکاسامناتھا اوریورپی یونین نے بھی اس جانب مناسب اقدام نہ کرنے پر جی ایس پی پلس اسٹیٹس واپس لینے کی دھمکی دی تھی جبکہ قصور واقعے نے بھی حکومت کو بچوں کے تحفظ کیلیے مناسب قانون سازی کرنے پر مجبور کیا۔
چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ مجریہ 2016 اورکرمنل لا سیکنڈ امنڈمنٹ مجریہ 2016 کی روسے تعزیرات پاکستان میں ترمیم کرکے جرم کرنے کی صورت میں بچوں کی عمرکی حدمیں اضافہ کیا گیا ہے۔ قانون میں ترمیم کے بعد جرم کی صورت میں بچے کی کم ازکم عمرکی حد 7 سال سے بڑھا کر10 سال کردی گئی ہے جب کہ زیادہ سے زیادہ عمر 12 سے بڑھا کر14 سال کردی گئی ہے۔ قانون میں ترمیم کے بعد10سال سے کم عمرکابچہ معصوم تصورہوگا اوراسے جرم میں ملزم نامزد نہیں کیاجاسکے گا جب کہ 12 سال سے بڑا اور14 سال سے کم عمرکا بچہ اپنی بے گناہی خودثابت کرے گا۔
قوانین میں ترمیم کے بعداب بچوں کی تصاویراوروڈیو بنانا۔ انھیں جنسی تعلق کی ترغیب، تشدد، بچوں کو جنسی مقاصد کیلیے اسمگل کرنا قابل گرفت جرائم میں شامل کردیا گیا ہے جس میں 7 سال سے عمرقید تک سزا ہوسکتی ہے جب کہ جنسی تشدد کے بارے قانون میں ترمیم کے نئے مجوزہ بل میں کم عمر بچوں کے ساتھ جنسی فعل کی صورت میں سزائے موت تجویزکی گئی ہے۔ قانون میں ترمیم کانیامجوزہ بل پارلیمنٹ کے آئندہ مشترکہ اجلاس میں منظوری کے لیے پیش کیاجائے گا۔ بچوں سے مشقت لینا قانوناً جرم قرار دیاگیا ہے، بچوں سے مزدوری کرانے والوں کوقیدوجرمانے کی سزائیں دی جاسکیں گی۔ ذرائع کے مطابق جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس برقرار رکھنے کیلیے پاکستان کو27عالمی قوانین اورکنونشنزپرعمل درآمد یقینی بناناہے جن میں انٹرنیشنل لیبرلاکی توثیق اورسزائے موت کاخاتمہ شامل ہے۔ ذرائع کے مطابق یورپی یونین کی طرف سے سزائے موت کی تعدادمیں اضافے، جبری گمشدگیوں اورسویلین افراد کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل پرسخت تحفظات سامنے آئے ہیں اوراس ضمن میں حکومت پاکستان کو متعدد بارتحریری طورپرآگاہ بھی کیاگیاہے۔ ذرائع نے بتایاکہ پاکستان کے حوالے سے موجود خدشات دورکرنے اوریورپی یونین کوقائل کرنے کے لیے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے چیئرمین جسٹس (ر) علی نوازچوہان کوخصوصی مشن پریورپ بھیجا گیا تھا، انھوں نے برسلزاورجرمنی میں یورپی یونین کے اعلیٰ عہدے داروں کے ساتھ ملاقاتیں کرکے انھیں پاکستان کی صورت حال سے آگاہ کیا اور دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں کامیابیوں کیلیے کچھ رعایتیں دینے کی درخواست کی۔