ایمزٹی وی(اسلام آباد) گزشتہ روزکمیٹی کااجلاس چیئرمین محمود بشیر ورک کی صدارت میں ہواجس میں پاکستان کمیشن آف انکوائری بل کاجائزہ لیاگیا۔ وفاقی وزیر قانون زاہد حامدنے بل پیش کرتے ہوئے کہاکہ نئے مجوزہ قانون کے تحت کمیشن کوزیادہ بااختیار کر دیا گیا ہے اوراب اسے کرمنل کورٹ، بیرون ملک تفتیش کے لیے ٹیم بنانے اور ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کا اختیاردے دیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وانصاف نے ایک ترمیم کے ساتھ پاکستان کمیشن آف انکوائری بل2016کی اتفاق رائے کے ساتھ منظوری دے دی، مجوزہ قانون پارلیمنٹ سے حتمی منظوری کے بعدانکوائری کمیشن ایکٹ مجریہ 1956 کی جگہ نافذالعمل ہوگا جس کے تحت پانامہ پیپرز سمیت کسی بھی معاملے کی انکوائری کیلیے قائم کردہ کمیشن کو ضابطہ دیوانی کے ساتھ ضابطہ فوجداری کے تحت بھی اختیارات حاصل ہو جائیںگے۔
کمیشن ایک معین مدت کے اندرانکوائری کرانے کا پابند ہو گا لیکن مخصوص حالات میں مدت میں توسیع ہوسکے گی جبکہ کمیشن کی عبوری اور حتمی رپورٹ کو لازمی طورپرعام کیاجائے گا، کمیشن کو مجسٹریٹ کے اختیارات بھی حاصل ہوںگے اور کسی بھی شخص کوطلب کرکے بیان حلفی پران کا بیان ریکارڈ کیا جاسکے گا، کمیشن کوکام میں رکاوٹ ڈالنے، اسے اسکینڈلائز کرنے، توہین کرنے یا حکم عدولی پر سزاؤں کا اختیار بھی حاصل ہوگا جبکہ ملک سے باہر انکوائری کیلیے ماہرین کی خدمات حاصل حاصل کی جاسکیں گی۔
نئے مجوزہ قانون کے تحت اب کوئی بھی شخص کمیشن کومعلومات فراہم کرنے کا مجاز ہو گا اور حمود الرحمن، ایبٹ آباد و دیگر کمیشن کی طرح رپورٹ خفیہ نہیںرہ سکے گی بلکہ حکومت رپورٹ کوعام کرنے کی پابند ہوگی۔
متحدہ قومی موومنٹ کے ایس اے اقبال قادری نے تجویزدی کہ مجوزہ قانون میں ترمیم کر کے ارکان کی تعداد زیادہ سے زیادہ 5 مقررکی جائے اورتمام ارکان سپریم کورٹ یاہائی کورٹس کے رٹائر یا حاضرسروس جج ہوں۔ انھوں نے تجویزدی کہ کمیشن کے ساتھ معاونت کیلیے مقرر کیے جانے والے سرکاری افسران گریڈ 17کے بجائے گریڈ 18 کے ہوں۔