ایمزٹی وی(اسلام آباد)پاناما لیکس کے حوالے سے دائر درخواستوں کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔ عدالت کی جانب سے دیئے گئے 2 گھنٹے کے وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو وزیراعظم کے وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ وزیراعظم نے کمیشن کو تسلیم کر لیا ہے، وزیراعظم لندن جائیدادوں پر کمیشن کی تجویز سے متفق ہیں لیکن کمیشن کو جہانگیر ترین اور عمران خان کی بہن کا کیس بھی بھیجا جائے، اگر الزامات ثابت ہو گئے تو وزیراعظم قانونی نتائج کو تسلیم کریں گے جس پر تحریک انصاف کے وکیل کا کہنا تھا کہ حکومت کمیشن کو جائیدادوں اور گوشواروں تک محدود کر رہی ہے۔ وزیراعظم کے وکیل کی جانب سے جواب جمع کرانے کے لئے زیادہ مہلت کی استدعا کی گئی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔
چیف جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حکومت اور اپوزیشن ٹی او آرز کے معاملے پر نظرثانی کریں، پورے ملک میں ہیجان کی کیفیت ہے اس لئے پاناما معاملے کو زیادہ طول نہیں دے سکتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر دونوں فریقین کمیشن اور ٹی او آرز پر متفق نہیں ہوتے تو عدالت اپنے ٹی او آرز پیش کرے گی۔ عدالت نے سماعت پرسوں 11:30 بجے تک ملتوی کرتے ہوئے کمیشن کی تشکیل اور ٹی او آرز پر وزیراعظم سمیت تمام فریقین سے تحریری جواب طلب کر لیا۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگ اپنی سیاست جاری رکھیں، اب پاناما مسئلہ عدالت ہی حل کرے گی، ایک بھی دن ضائع نہیں کریں گے، انہوں نے کہا کہ کوئی حکم نہیں دے رہے لیکن بہتر سوچ کے لئے پر امید ہیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہلوگ 8 ماہ سے پش اپس لگا رہے ہیں، کیس کو زیادہ طول نہیں دیں گے، اب سب کو سخت موقف پر نظر ثانی کرنی چاہیئے۔
ازیں کیس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا تمام فریقین نے پاناما لیکس کے حوالے سے جواب جمع کرا دیا ہے؟ جس پر جسٹس شیخ عظمت سعید کا کہنا تھا کہ نیب کے سوا کسی بھی فریق نے جواب جمع نہیں کرایا۔ طارق اسد ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ حکمران ہم پر مسلط ہیں جب کہ نیب نے پاناما لیکس کے حوالے سے تحقیقات نہیں کیں جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکمرانوں کو ہم ہی نے منتخب کیا ہے جب کہ عدالت نے نیب کے جواب کو افسوسناک قرار دیا۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے نیب پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ آپ نے معاملے کی تحقیقات کیوں نہیں کیں جب کہ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہا کہ کیا نیب کے پاس شواہد اکٹھے کرنے کا اختیار نہیں ہے، عوام شواہد ان کے پاس لے کر آئیں گے تو نیب کارروائی کرے گا۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے بھی نیب کے جواب پر اظہار برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیب نے روز مرہ کارروائی سے انحراف کیوں کیا؟ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بڑا واضح پیغام مل گیا ہے کہ کوئی ادارہ اپنا کام نہیں کرنا چاہتا، اب اس معاملے پر کمیشن بنانے کی ضرورت نہیں، سپریم کورٹ اس کیس کو خود دیکھے گی۔
وزیراعظم کی جانب سے سابق اٹارنی جنرل سلمان بٹ پیش ہوئے اور کہا کہ مجھے 5 روز قبل ہی وکیل مقرر کیا گیا ہے لہذا جواب جمع کرانے کے لئے مہلت دی جائے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پوری قوم کی نظریں پاناما لیکس پر لگی ہیں اس لئے آپ کو جواب جمع کرانا چاہیئے تھا، ہم سمجھیں گے کہ آپ کو جواب جمع کرانے میں دلچسپی نہیں، بادی النظر میں یہ معاملہ عوامی ہے اس لئے اس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو سکتی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 20 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے کیس 2 ہفتے میں لگانے کا
فیصلہ کیا لیکن خبر لگی کہ عدالت نے کیس کی تاریخ پر نظر ثانی کردی، یہ سرخی کیسے لگی؟ میڈیا کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا چاہیئے۔
عمران خان کے وکیل حامد خان کا کہنا تھا کہ اپریل میں پاناما کا معاملہ سامنے آیا، پاناما دستاویزات میں اہم شخصیات کی آف شور کمپنوں کا بتایا گیا جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا کسی نے بھی پاناما دستاویزات پر اعتراض نہیں کیا؟ تو حامد خان نے جواب دیا کہ کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا۔ حامد خان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے بچوں کی فرمز کا ویب سائٹ کے ذریعے علم ہوا تو عدالت نے پوچھا کہ نیلسن اور نیسکول کب بنائی گئیں جس پر حامد خان نے کہا کہ ایک ہی فلور پر 4 جائیدادوں کا ذکر کیا گیا ہے اورچاروں جائیدادیں 1993 سے 1996 کے درمیان بنائی گئیں۔
سپریم کورٹ نے وزیراعظم سے ایک بجے تک جوڈیشل کمشین کی تشکیل کے حوالے جواب طلب کرلیا۔ عدالت نے فریقین کے سامنے 3 آپشن بھی رکھ دیئے ہیں، پہلا آپشن یہ ہے کہ ہم بینک اکاؤنٹس کے کھاتے خود کھولیں اور انہیں چیک کریں، دوسرا آپشن یہ ہے کہ تحقیقاتی ادارے اس معاملے کی تحقیقات کریں اور آخری آپشن یہ ہے کہ درخواست گزار اس معاملے پر ثبوت عدالت میں پیش کریں۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف کے چیرمین عمران خان، امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے پاناما لیکس کے حوالے سے درخواستیں دائر کر رکھی ہیں جب کہ گزشتہ سماعت کے موقع پر عدالت نے یکم نومبر تک وزیراعظم نواز شریف سمیت تمام فریقین کو جواب جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔