ایمز ٹی وی (اسلام آباد) وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے صوبائی حکومتوں کے درمیان غیر معمولی مسائل کو حل کرنے کے لیے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس جمعہ 24 نومبر کو طلب کرلیا۔ واضح رہے کہ وزیر اعظم کی جانب سے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی جگہ وزیر داخلہ احسن اقبال کو مشترکہ مفادات کونسل میں شامل کیے جانے کے بعد یہ پہلا اجلاس ہوگا۔
اجلاس میں بین الصوبائی کمیٹی ( آئی پی سی سی) اور مشترکہ مفادات کونسل کی ذیلی کمیٹیوں کی رپورٹس پر غور کیا جائے گا۔ وزیر اعظم کی زیر صدارت اس اجلاس میں تمام صوبوں کے وزراء اعلیٰ اور تین وفاقی وزراء غلام مرتضیٰ جتوئی، ریاض پیر زادہ اور احسن اقبال کے علاوہ، مشترکہ مفادات کونسل کے ارکان، وفاقی وزارتوں اور صوبوں کے سینئر حکام بھی شرکت کریں گے۔ اجلاس میں مشترکہ مفادات کونسل مالی معاہدوں کے لیے کمیٹی کی تشکیل، اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن، ورکر ویلفیئر فنڈ، قومی پانی پالیسی، ایل این جی پالیسی، وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی پیٹرولیم کمپنیوں کی پیٹرولیم پالیسی نافذ نہ کرنے اور حکومت کی جانب سے گزشتہ 60 ماہ یا اس سے زائد عرصے سے سنگل ریسرچ بلاک پیش نہ کرنے کے حوالے سے جائزہ لیا جائے گا
مشترکہ مفادات کونسل بین الصوبائی کمیٹی کے صوبائی پیداوار کو تیل اور گیس کے متعلقہ نتائج کے حصول کے لیے اختیارات دینے کے فیصلے پر غور کرنے کا امکان ہے تاکہ آرٹیکل 158 کو اس کی اصل شکل میں نافذ کیا جاسکے۔ اجلاس میں وزیراعظم چاروں وزراء اعلیٰ کو اس بات پر راضی کریں گے کہ وہ گیس کی افادیت کو فعال کرنے کے لیے گیس سیکٹر اصلاحات پر اپنے اعتراضات ختم کردیں۔ بین الصوبائی کمیٹی میں خیبر پختونخوا، بلوچستان اور سندھ کے ووٹ کی اکثریت شامل ہے اور بین الصوبائی کمیٹی کے وزیر ریاض پیر زادہ کی جانب سے حال ہی میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ آرٹیکل 158 کو اس کی حقیقی روح میں لاگو کرنے کے لیے تیل اور گیس کے پروڈیوسر کو صوبوں میں استعمال کرنے کی ترجیح دینی چاہیے۔ بین الصوبائی کمیٹی نے حکومتی اداروں کو ہدایت کی تھی کہ وہ تین ہفتوں میں تیل، گیس اور بجلی کی صوبوں کے ساتھ پیداواری شراکت کے لیے میکینزم تیار کریں، ساتھ ہی پنجاب اور خیبر پختونخوا کو نیٹ ہائیڈل منافع کی بروقت ادائیگی یقینی بنانے کا پابند کریں۔
اجلاس میں صوبائی حکومتوں کی جانب سے ایل این جی درآمد کی پالیسی پر تحفظات پر بھی تبادلہ خیال کیا جائے گا۔