ھفتہ, 23 نومبر 2024


وزیراعظم نے ڈیموں کی تعمیر کےلئے دنیا بھر میں موجود پاکستانیوں سے مدد مانگ لی

 

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے پانی کی شدید قلت کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہوئے ملک میں ڈیموں کی تعمیر کےلئے قوم اوردنیا بھر میں موجود پاکستانیوں سے مدد مانگ لی اور کہا ہے کہ یورپ اور امریکا میں مقیم اوورسیز پاکستانی 1ہزارڈالرزفی کس ڈیم فنڈز میں جمع کرائیں‘ وہ جو سعودی عرب، یو اے ای یا مشرق وسطیٰ میں مزدوری کر رہے ہیں، وہ اپنی استطاعت کے مطابق عطیات بھیجیں ‘ڈ یموں کی تعمیر ناگزیر ہوچکی ہے ، اگر ڈیمز نہ بنائے توسات سال بعد 2025 میںخشک سالی شروع ہوجائے گی‘ فصلوں اور پینے کیلئے بھی پانی نہیں ملے گا‘ قحط کا خطرہ ہے ،حکومت آج سے کام کا آغاز کررہی ہے،چیف جسٹس آف پاکستان سے بات کی ہے، ہم سی جے اور پی ایم فنڈکو یکجا کر رہے ہیں‘دو ہفتے سے قومی مسائل پر بریفنگ لے رہا ہوں ،وعدہ کیا تھا تمام معاملات قوم کے سامنے لاؤں گا ،جب پاکستان آزاد ہوا تو ہر پاکستانی کے حصے میں

5ہزار 6سو کیوبک میٹرز پانی آتا تھا اور آج ہر پاکستانی کے حصے میں صرف ایک ہزار کیوبک میٹرزپانی رہ گیا ہے‘ ملک میں صرف 30دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے جبکہ دنیا سمجھتی ہے کہ 120 دن کے ذخیرہ کی گنجائش ہونی چاہئے‘ چیف جسٹس آف پاکستان کوخراج تحسین پیش کرتاہوں کہ انہوں نے اس حوالے سے قدم اٹھایا یہ ان کا نہیں ہم جیسے سیاستدانوں کا کام تھا، یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے ایک ایک پیسے کی حفاظت کروں گا،جتنی بھی جماعتیں ہیں ان سے کہوں گاکہ آپ کو ڈیمز بنانے کےلئے جہاد کرنا ہے ،پرانے قر ضے واپس کرنے مشکل ہیں ‘ہمیں باہر سے کوئی نئے قرضے نہیں دے گالیکن ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت یہ ڈیم بنانا ہے اور ہم بنا سکتے ہیں۔ ہم نے صرف فیصلہ اور ارادہ کرنا ہے۔ گزشتہ دس برس میں ملکی قرضہ 6ہزار ارب سے 30ہزار تک پہنچا ہے ‘چیف جسٹس اور وزیراعظم ڈیم فنڈز میں سارے ملک سے بھی لوگ حسب توفیق پیسے بھیجیں ۔ انہوں نے یہ بات جمعہ کی شام پانی کی قلت اور ڈیمز کی تعمیر کے خصوصی حوالے سے قوم کے نام اپنے نشریاتی پیغام میں کہی ۔ وزیراعظم نے کہا کہ پچھلے دو ہفتے سے بریفنگ لے رہا ہوں تا کہ جان سکوں کہ ہمارے معاشی طور پر حالات کیا ہیں ، پاکستان پر قرضے کتنے ہیں ، بجلی ، گیس کی کیا صورتحال ہے ، اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں بہت سے مسائل درپیش ہیں‘ میری نظر میں سب سے بڑا مسئلہ پانی کا ہے ، جب پاکستان آزاد ہوا تو ہر پاکستانی کے حصے میں 5ہزار 6سو کیوبک میٹر پانی آتا تھا اور آج ہر پاکستانی کے حصے میں صرف ایک ہزار کیوبک میٹرزپانی رہ گیا ہے ، وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں پانی کے ذخیرہ کی گنجائش صرف 30 دن کی ہے جبکہ بھارت میں یہ 90 دن اور مصر میں ایک ہزار دن کی ہے جبکہ دنیا سمجھتی ہے کہ 120 دن کے ذخیرہ کی گنجائش ہونی چاہئے۔ اب ڈیمز کی تعمیرناگزیر ہے ، اگر ہم نے اب بھی ڈیم بنانے شروع نہ کئے توآنے والی نسلوں کےلئے ایسے مسائل ہوں گے جو سوچ بھی نہیں سکتے ۔

وزیراعظم نے کہا کہ ماہرین کے مطابق 2025میں پا کستا ن میں خشک سالی شروع ہو جائے گی اور ہمارے لئے اناج اگانے کےلئے بھی پانی نہیں ہوگا ، اناج نہیں ہوگا تو پاکستان میں قحط آسکتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ میں چیف جسٹس کو داد دیتا ہوں کہ انہوں نے پانی کے مسئلے پر اہم قدم اٹھایا ، یہ کام سیاستدانوں کے کرنے کا تھا جسے چیف جسٹس نے کیا ، میں نے چیف جسٹس سے بات کر لی ہے ہم وزیراعظم اور چیف جسٹس کے ڈیم فنڈز کو اکٹھا کر رہے ہیں ۔ انہوں نے چیف جسٹس فنڈ میں 180کروڑ اکٹھا کر لیا ہے ، میں سارے پاکستانیوں سے اپیل کرتا ہوں ، پوری دنیا میں جہاں بھی پاکستانی ہیں سارے اپنے مستقبل کےلئے اس فنڈ میں پیسے جمع کروانے شروع کردیں ۔انہوں نے کہا کہ میں 80 سے 90 لاکھ کی تعداد میں بیرون ملک پاکستانیوں سے بالخصوص مخاطب ہوں کہ اگر وہ کم از کم ایک ہزار ڈالر اس فنڈ میں بھیجیں تو ہمارے پاس ڈیم بنانے کے لئے بھی پیسہ جمع ہو جائے گا اور ڈالر کی شکل میں زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی اضافہ ہو جائے گا اور ہمیں کسی سے قرضہ بھی نہیں مانگنا پڑے گا۔ آج ملک کو زرمبادلہ کی اشد ضرورت ہے، پاکستان میں ڈالر کی کمی ہے‘بیرون ملک پاکستانیوں کے عطیات سے نہ صرف ہمارے ذخائر ٹھیک ہو جائیں گے بلکہ قرضے مانگے بغیر ڈیم بننا شروع ہو جائے گا‘ اگر مالی وسائل دستیاب ہوں تو ہم پانچ سال میں ڈیم بنا لیں گے۔ انہوں نے اس ضمن میں نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ 80 ارب روپے لاگت کا منصوبہ پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے 500 ارب روپے تک پہنچ گیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ سمندر پار پاکستانی جو ایک ہزار ڈالر کے متحمل نہیں ہو سکتے، وہ جو سعودی عرب، یو اے ای یا مشرق وسطیٰ میں مزدوری کر رہے ہیں، وہ اپنی استطاعت کے مطابق عطیات بھیجیں تاہم یورپ اور امریکا میں مقیم پاکستانی کم از کم ایک ہزار ڈالر یا اس سے زائد رقوم بھیجیں

 

پرنٹ یا ایمیل کریں

Leave a comment