چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اورجسٹس اعجازالاحسن پرمشتمل تین رکنی بنچ نے تھر میں بچوں کی اموات سے متعلق کیس کی سماعت کی، سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ میں 12 دسمبر کو تھر جا رہا ہوں، حکومت سندھ انتظامات کرے، تھر میں نومولود بچے ہلاک ہو رہے ہیں، وہاں پانی کی فراہمی اور دستیابی کے بھی مسائل ہیں، صرف اچھے علاقے نہ دکھائیں، مجھے وہ علاقے بھی دکھائیں جہاں غربت اور مسائل ہیں، تھرمیں پانی اورخوراک کے مسائل تشویشناک ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ گزشتہ سماعت پر عدالت نے سیشن جج سے رپورٹ مانگی تھی، متاثرہ افراد میں خوراک کی تقسیم کر دی گئی ہے۔
ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ گریڈ ون سے 11 تک کے ملازمین کو 10 ہزار اضافی، گریڈ 12 سے 16 تک کے ملازمین کو 17 ہزار اضافی، گریڈ 17 کے ملازمین کو 90 ہزار جبکہ گریڈ 18 سے اوپر 1 لاکھ 40 ہزار اضافی دے رہے ہیں۔
سماعت کے دوران رکن اسمبلی رمیش کمار وں کوانی نے کہا کہ وزیراعظم ہاؤسنگ سکیم کو تھر میں لایا جانا چاہیے، مٹھی میں زچہ و بچہ کے لیے ڈاکٹرز نہیں ہیں جبکہ تھر میں جانوروں کے ڈاکٹروں کی بھی ضرورت ہے جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اپنی آنکھوں سے اصل صورتحال دیکھنے کے بعد اس معاملے کو سنیں گے۔
عدالتی معاون فیصل صدیقی نے کہا کہ تھر میں احتساب اور نگرانی کے موثر نظام کی ضرورت ہے لہذا ایک عدالتی کمیشن مقرر کر دیا جائے، تھر میں بنک قرضوں کا بہت بڑا معاملہ ہے اور قرضوں کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں جس پر نمائندہ اسٹیٹ بنک نے عدالت کو آگاہ کیا کہ کسانوں کے قرضے کو ری شیڈول کر رہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بنا دیں گے، بعدازاں کیس کی سماعت 13 جنوری تک ملتوی کردی گئی۔