اسلام آباد: چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف کیس کی سماعت کی۔ درخواست گزار ریاض حنیف راہی عدالت میں پیش ہوئے۔
اٹارنی جنرل نے جنرل قمر باجوہ کی بطور آرمی چیف تقرری کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ نوٹیفکیشن میں کہیں آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت کا ذکر نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف کو توسیع کی ضرورت ہی نہیں، نوٹیفکیشن کے مطابق وہ ہمیشہ آرمی چیف رہیں گے، کیا جنرل باجوہ کو آگاہ کیا گیا کہ انہیں کتنے سال کے لیے تعینات کیا گیا۔
چیف جسٹس نے فروغ نسیم کو روسٹر پر بلاکر پوچھا کہ کیا آرمی چیف کل ریٹائر ہو رہے ہیں؟۔ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ آرمی چیف کل نہیں پرسوں رات 12 بجے ریٹائر ہونگے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہتے ہیں وہ ریٹائر ہو رہے لیکن اٹارنی جنرل کہتے ہیں کہ جنرل ریٹائر نہیں ہوتا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ آرمی چیف کی مدت 3 سال کہاں مقرر کی گئی ہے، کیا وہ 3 سال بعد خود ہی گھر چلا جاتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ آرمی چیف کی مدت تعیناتی کا کوئی ذکر نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا آپ نے جو دستاویزات جمع کرائیں ان کے ساتھ آرمی چیف کا اپائنٹمنٹ لیٹر ہے، جنرل قمر باجوہ کی بطورآرمی چیف تعیناتی کا نوٹیفکیشن کہاں ہے، کیا پہلی بارجنرل باجوہ کی تعیناتی بھی 3 سال کے لئے تھی، آرمی چیف کی مدت تعیناتی طے کرنے کا اختیار کس کو ہے۔