اسلام آباد: سابق وزیر خارجہ و چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ امید کرتا ہوں بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر ذمہ داری نبھاتے ہوئے مناسب باتیں کریں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جس طرح میں بھارت گیا اسی طرح آج بھارتی وزیر خارجہ پاکستان آئے ہیں، ایس سی او اجلاس انتہائی اہمیت کا حامل ہے لہٰذا نہیں سمجھتا کہ دوطرفہ بات چیت کی امید رکھنی چاہیے، اجلاس میں ہم باہمی معاملات کو نہیں اٹھاتے پلیٹ فارم کے ذریعے ہم مختلف ایشوز پر اقدامات کرتے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہماری بھی کوشش تھی اجلاس میں بھارت کی نمائندگی ہو، اجلاس پاکستان میں ہونا فخر کی بات ہے، بحیثیت وزیر خارجہ پچھلے اجلاس میں کردار ادا کیا، پوری امید ہے پاکستان میں اجلاس کامیاب ہوگا، مختلف ممالک کے وزرائے اعظم کانفرنس کیلیے پاکستان میں موجود ہیں، ایس سی او کیلیے بھارت کے وزیر خارجہ کو پاکستان میں ویلکم کرتا ہوں۔
’اجلاس کی کامیابی کیلیے ہم اپنی کمٹمنٹ ظاہر کرنا چاہتے تھے۔ جے شنکر کو بھیجنا بھارت کا اپنا فیصلہ ہے۔ بھارتی وزیر اعظم میں اعتماد ہوتا تو وہ خود آتے۔ ایس سی او رولز کے مطابق دوطرفہ معاملات کو نہیں اٹھایا جا سکتا۔ بھارت نے سارک پلیٹ فارم کیلیے مشکلات پیدا کر رکھی ہیں۔ پاکستان بھارت کو سوچنا ہوگا کیا اپنے تعلقات میں یہی سرد مہری قائم رکھنی ہے؟ پاکستان اور بھارت کو غور کرنا چاہیے کہ دوطرفہ تعلقات کیلیے ایک بات چیت کا آغاز کرنا چاہیے۔ آج نہیں کل نہیں لیکن کسی نا کسی دن تو بات چیت کا آغاز کرنا پڑے گا۔‘
سابق وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم سب مانتے ہیں دہشتگردی سب کیلیے مسئلہ ہے لیکن دونوں ممالک کو دیکھنا ہوگا کہ دہشتگردی میں ہم عوام کی جان کیسے بچا سکتے ہیں، آپس میں بیٹھ کر دیکھیں کہ دہشتگردی کے حوالے سے کس چیز پر بات کر سکتے ہیں، پاکستان اور بھارت کا اپنا اپنا مؤقف ہوگا کہ صرف ایس سی او کے حوالے سے بیٹھیں ہیں، دوطرفہ بات چیت کا معاملہ بھارتی عوام اور پاکستانی عوام پر منحصر ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح میں نے بھارت میں بھارتی میڈیا کا سامنا کیا امید کرتا ہوں بھارتی وزیر خارجہ بھی پاکستانی میڈیا کا سامنا کریں گے، اپنی میزبانی کو بہت اہمیت دیتے ہیں ایسی بات نہیں کرنا چاہتا جو بری لگے، ایس سی او پر بیٹھ سکتے ہیں تو عوامی مسائل، خطے میں امن اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے یلیے کیوں بات نہیں کر سکتے؟
بلاول بھٹو زرداری کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی وزیر خارجہ کو جانتا ہوں وہ بولنے سے خود کو روک نہیں پائیں گے، ان کی عزت کرتا ہوں ہم ثقافت کے مطابق میزبانی کو سنجیدہ لیتے ہیں، پاکستان میں ایس سی او کے موقع پر ایسی بات نہیں کرنا چاہتا کہ بھارتی وزیر خارجہ کو بری لگے، امید کرتا ہوں وہ ذمہ داری نبھاتے ہوئے مناسب باتیں کریں گے، جانتا ہوں وہ رہ نہیں پائیں گے اور دہشتگردی پر اپنا بیانیہ دہرائیں گے، وہ اپنا بیانیہ دہرائیں تو بھی بطور میزبان ہمیں اسے معاف کرنا چاہیے، بھارتی عوام اور وزیر خارجہ کو موقع نہیں ملنا چاہیے کہ وہ شکایت کریں۔